اچھی اور بری تقدیر اﷲ کی طرف سے ہے

 

سورۂ توبہ میں اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اﷲ کے نزدیک مہینوں کی گنتی ۱۲ ہے اور یہ تب سے ہے جب سے زمین و آسمان کی تخلیق کی گئی ہے ۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو تمام جاہلیت کے رسومات باطل کو رد کردیا اور اسلام کے نور کی برکت سے کائنات روشن ہوگئی ۔ ہر قسم کے باطل و مشرکانہ رسومات و توہمات کا خاتمہ ہوگیا۔ اسلامی مہینوں کے اعتبار سے ماہِ صفر دوسرا مہینہ ہے ۔ صفر کے لغوی معنی ’’خالی ہونے کے ‘‘ ہیں ۔ عرب کے لوگ ماہِ محرم کا احترام کرتے تھے اور صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی گھروں کو چھوڑ دیتے تھے جس کی وجہ سے معاشی پریشانی ہوا کرتی تھی ، اسی وجہ سے بھوک و افلاس کو بڑھانے والا مہینہ کہتے تھے ۔ جاہلیت کے زمانے سے ہی لوگ ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے اور اس سے بدشگونی لیتے تھے ۔ اس ماہ کی وجہ سے فقر و فاقہ ، مصائب ، بلیات میں گھرجانے کا یقین رکھتے تھے۔ ایسے باطل عقیدے ان کے دلوں میں گھرچکے تھے ۔
اسلام نے ان تمام باطل تصورات کو ختم کردیا۔ پریشانیوں اور مصائب کا تعلق مہینوں سے نہیں ہوتا بلکہ نیک بندوں کیلئے آزمائش اور گناہگار کے حق میں اس کی بدعملیوں کانتیجہ ہے ۔ سورۃ الشوریٰ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے تمہاری بدعملی کے سبب پہنچتی ہے جو تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے ‘‘۔
سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے بہت ہی واضح الفاظ میں اس مہینے کے بارے میں فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی بیماری متعدی نہیں ، ماہِ صفر کی نحوست اور مخصوص پرندے سے بدشگونی لینا اور فال نکالنا سب بے حقیقت باتیں ہے ۔ ( صحیح البخاری )
حقیقت میں خیر و بھلائی عطا کرنے والا اﷲ تعالیٰ ہی ہے ۔ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ اچھی اور بری تقدیر اﷲ کی طرف سے ہے ۔
سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا بدشگونی لینا شرک جیسا عمل ہے ۔ آپ نے اس کو تین مرتبہ فرمایا ۔ ( ترمذی )
مولائے کائنات سے مروی ہے کہ صفر میں نہ بدفالی ہے ، نہ نحوست ہے اور نہ بیماری کا لگنا ہے ۔
مذکورہ احادیث اور قرآن کی روشنی میں واضح طورپر معلوم ہوگیا کہ صفر کا مہینہ منحوس نہیں ہے ۔ اس مہینہ میں شادی ، بیاہ ، سفر ، نیا مکان بنانا ، نیا کاروبار کرنا وغیرہ وغیرہ تمام اُمور انجام دے سکتے ہیں۔ بلکہ اس ماہ میں حضور اکرم ﷺ نے خاتون جنت کاعقد کیا ۔ زجاجۃ المصابیح میں سنن ابوداؤد کے حوالہ سے حدیث پاک ہے کہ سیدنا عروۃ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں بدشگونی کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اچھا شگون فال نیک ہے اور بدشگونی کسی مسلمان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتی جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھو جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھیں : ’’اے اﷲ ہر قسم کی بھلائیوں کو لانے والا تو ہی ہے اور تمام قسم کی برائیوں کو دفع کرنے والا بھی تو ہی ہے نہ بُرائی سے بچنے کی کوئی طاقت ہے اور نہ نیکی کرنے کی قوت ہے مگر اﷲ ہی کی مدد سے ‘‘ ۔
اسی طرح ہمارے معاشرہ میں یہ تصور بھی عام ہے کہ ماہِ صفر کے آخری چہارشنبہ کو سیرو سیاحت کرنا اور گھانس پر چہل قدمی کرنے سے بلا سے محفوظ رہتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کا کہیں بھی ثبوت نہیں ملتا ۔ ایک باطل نظریہ یہ بھی ہے کہ لوگ چہارشنبہ کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اس دن بھی کوئی اچھا کام نہیں کرتے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’چہارشنبہ کے دن جس چیز کا بھی آغاز کیا جائے گا وہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے ‘‘۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ایسے باطل عقائد سے محفوظ رکھے ۔