اپوزیشن کی صفوں میں دراڑیں

پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیانے کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
اپوزیشن کی صفوں میں دراڑیں
اب جبکہ ملک میں آئندہ عام انتخابات کیلئے محض چند ہفتوں کا وقت باقی رہ گیا ہے اور انتخابات کا شیڈول اور اعلامیہ کسی بھی وقت جاری ہوسکتا ہے سیاسی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت خود کو انتخابات کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرنے میں مصروف ہے ۔ سیاسی اتحاد ہو رہے ہیں‘ سابقہ اتحاد توڑے جا رہے ہیں ‘ کسی جماعت سے استعفیٰ پیش ہو رہے ہیں اور دوسری جماعتوں میںشمولیت اختیار کی جا رہی ہے ۔ قومی سطح پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دینے کیلئے بھی کوششیں ہو رہی ہیں۔ علاقائی سطح پر کچھ جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ آتی جارہی ہیں تاہم یہ اتحاد پوری طرح مستحکم دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ کہا نہیں جاسکتا کہ جب یہ اتحاد قطعی شکل اختیار کریگا تو اس کی ہئیت اور نوعیت کیا ہوگی لیکن فی الحال اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس اتحاد میں دراڑیں ہیں ۔ اگر اپوزیشن کو آئندہ انتخابات میں بی جے پی کی کامیابیوں کا سفر روکنا ہے اور نریندر مودی کو مرکز میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے سے باز رکھنا ہے تو پھر اپوزیشن کو کچھ سرعت کے ساتھ اتحاد کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا ۔ اس کی قطعی نوعیت اور ہئیت کے تعلق سے فیصلہ کن مذاکرات ہونے چاہئیں۔جو خامیاں فی الحال دکھائی دے رہی ہیں ان کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک ان جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے طور پر ایثار کے جذبہ سے ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے کوئی فیصلہ کن موقف اختیار نہیں کیا جاتا اس وقت تک اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کا امکان کم ہی رہے گا اور اگر تحفظات ذہنی کے ساتھ یا پھر سیاسی انا پرستی کے ساتھ اتحاد ہوتا بھی تو یہ موثر نہیں کہا جاسکتا ۔ اس کے نتائج توقعات کے مطابق نہیں ہوسکتے ہیں ۔ ہر ریاست میںسیاسی جماعتوں کی حقیقی طاقت اور عوامی تائید کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف انا پرستی یا پھر انا کی تسکین کیلئے زیادہ نشستوں کیلئے مصر رہنا کسی بھی جماعت کیلئے مناسب نہیں ہوگا ۔ ایسا کرنا در اصل بی جے پی اور این ڈی اے کی مدد کرنے کے مترادف ہوگا اور یہ قومی کاز یا جمہوریت کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا ۔
کانگریس اپنے طور پر انتخابات کیلئے سرگرم ہوچکی ہے ۔ وہ تنظیمی امور پر اور حکمت عملی کی تیاری میں مصروف ہے لیکن کچھ مقامات پر کانگریس کو بھی وسیع تر قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے علاقائی جماعتوں کو اہمیت دینی ہوگی ۔ نریندر مودی یا بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کرنے سب سے زیادہ کانگریس کیلئے ضروری ہے اور پارٹی کو یہ نشانہ اپنے ذہن میں ہر وقت رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یو پی میں کانگریس اپنی صفوں کو مستحکم کرنے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کوشاں ہے ۔ اس کیلئے پرینکا گاندھی کو سرگرم کردیا گیا ہے ۔ یہ اچھا اقدام ہے لیکن اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ جن نشستوں پر کانگریس بہت کمزور ہو وہاں ایس پی ۔ بی ایس پی کی تائید کی جائے ۔ دہلی میں اروند کجریوال کانگریس سے اتحاد کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس کو وہاں بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو مواقع اتحاد کیلئے بنتے جارہے ہیں آگے بڑھ کر انہیں حاصل کرلینے کی ضرورت ہے ۔ جموں و کشمیر ہو یا ٹاملناڈو ہو ‘ مہاراشٹرا ہو یا تلنگانہ ہو ‘ اترپردیش ہو یا پھر بہار ہو ‘ اوڈیشہ ہو یا جھارکھنڈ ہو ہر ریاست میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے جہاںسے اپوزیشن کو بی جے پی کو شکست دینے کا موقع مل سکے ۔ جن ریاستوں میں کانگریس کا موقف مستحکم بھی ہو اور کچھ علاقائی جماعتیں اس کے ساتھ آنا چاہتی ہوں وہاں بھی کانگریس کو چاہئے کہ ایسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے ۔
جو علاقائی اور ریاستی جماعتیں ہیں انہیں بھی اگر مستقبل میں اپنے سیاسی وجود کو باقی رکھنا ہے تو پھر مخالف بی جے پی محاذ کا حصہ بننا چاہئے ۔ ان جماعتوں کو بھی محض اپنے علاقائی مفادات کی خاطر قومی سطح کے مفادات کو ترک کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ ہر جماعت کو یہ ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت ہی وہ ہتھیار ہے جس سے ہر طاقت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور مودی حکومت یا بی جے پی جمہوریت کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کو بچانا ہے اور اسے مستحکم کرنا ہے تو پھر اپوزیشن کو بی جے پی کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے اور یہ اتحاد اسی وقت ممکن ہے جب ہر جماعت جذبہ ایثار اور فراخ دلی کے ساتھ کام کرے ۔ ہر جماعت اگر صرف اپنے مفادات کی فکر کرتی رہی تو انہیں تو کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس سے بی جے پی کے مفادات کی تکمیل ہوجائیگی ۔