اپوزیشن کیلئے محاسبہ کا وقت

اس کے کانٹے بھی مجھے لگتے ہیں پھول
اس کی یہ جادوگری اچھی تو ہے
اپوزیشن کیلئے محاسبہ کا وقت
ملک نے آئندہ پانچ سال کیلئے سیاسی سفر کی راہ کا تعین کردیا ہے ۔ نریندر مودی کو لگاتار دوسری مرتبہ وزارت عظمی کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے ۔ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے نے ملک بھر میں زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو برقرار رکھا ہے ۔ بی جے پی نے خود بھی اپنی سابقہ نشستو ں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور اس نے ان مقامات پر کامیابی حاصل کی جہاںاس کیلئے کامیابی ملنی مشکل سمجھی جا رہی تھی ۔ خاص طور پر مغربی بنگال میں بی جے پی نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ شائد اس کی خود کی توقعات سے بھی کہیں زیادہ رہی ہو۔ ملک کے عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ ملک کی سیاسی مستقبل کی راہ کا فیصلہ کردیا ہے اور ایک بار پھر اپوزیشن کیلئے ایک سبق دیا ہے اور اگر اپوزیشن کو اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہے اور اسے کو آگے بڑھانا ہے تو پھر یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ پوری دیانتداری کے ساتھ یہ جائزہ لیا جانا چاہئے کہ اس کی کوششوں میں کہاں کمی رہ گئی ہے اور وہ کہاں عوام کو متاثر کرنے میں یا ان کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ جب تک اپوزیشن کی صفوں میں محاسبہ نہیں ہوگا اس وقت تک انہیں اپنے وجود کو باقی رکھنے اور برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آتی رہیں گی ۔ ایک بات یہ واضح ہوگئی ہے کہ بی جے پی نے جس طرح سے کامیاب حاصل کی ہے اور اس کی حلیفوں نے بھی عوام کی جو تائید حاصل کی ہے اس کے بعد خاص طور پر ملک میں جو سیاسی تبدیلیاں آسکتی ہیں وہ سبھی گوشوں کیلئے انتہائی غیر متوقع ہوسکتی ہیں۔ جس طرح سے نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نے ملک کے تمام سیاسی قائدین اور جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہے ان کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور وہ اب اپنے منصوبوں اور پروگراموں کو پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھائیں گے اور اپوزیشن کے حوصلے پست ہیں جس کی وجہ سے انہیں کسی طرح کی رکاوٹ یا پریشانی کا سامنا بھی کرنا نہیں پڑے گا ۔ نتائج نے واضح کردیا ہے کہ حکومت یا این ڈی اے کے سامنے اب کوئی اور رکاوٹ نہیں رہ جائے گی اور وہ بے لگام ہوگا ۔
اپوزیشن جماعتوں کو یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہاں ناکام ہوئے ہیں اور کہاں ان سے چوک ہوگئی ہے ۔ کہاں ان کی کوششیں عوام کو راغب کرنے میں ناکام رہی ہیں اور وہ کیوں عوام کی تائید حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ اگر ہر سیاسی جماعت اپنے ہی خول میں بند ہوکر سوچتی رہے تو پھر اسے مستقبل میں بھی اسی طرح کی ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑسکتا ہے ۔ لیکن اگر اپوزیشن جماعتیں غیر جانبداری کے ساتھ اپنی شکست کی وجوہات کا جائزہ لیں تو پھر وہ ہوسکتا ہے کہ اس جڑ تک پہونچ سکیں جس کی وجہ سے انہیں ناکامی اور شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہو ۔ اپوزیشن کی صفوں میں حالانکہ مشترکہ نعرہ رہا تھا کہ نریندر مودی کو دوبارہ وزیر اعظم بننے سے روکنا ان سب کا مقصد ہے لیکن ان کی صفوں میں ہمیں اتحاد دکھائی نہیں دیا ۔ ہر جماعت نے یہ تصور کرلیا تھا کہ وہ اپنے طور پر اپنی ریاست میں مودی کو روکنے میں کامیاب ہوگی لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے ۔ ممتابنرجی نے بنگال میں تنہا مقابلہ کیا جس کا خمیازہ یہ نکلا کہ بی جے پی وہاں شاندار کامیابی حاصل کرچکی ہے ۔ اسی طرح اترپردیش میں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے کانگریس کو ساتھ ملانا ضروری نہیں سمجھا اور اپنے طور پر مقابلہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں بی جے پی کو اتنا نقصان نہیں پہونچایا جاسکا ہے جتنی کہ امید کی جا رہی تھی ۔ اسی طرح دہلی اور ہریانہ میں کانگریس ۔ عام آدمی پارٹی نے اتحاد نہیں کیا اور یہاں بھی جو نتائج ہیں وہ سارے ملک کے سامنے ہیں جو بی جے پی کے حق میں رہے ہیں۔
اپوزیشن کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اس کے جو مقبول عام چہرے بن گئے تھے یا پھر جو اپوزیشن کا چہرہ قرار دئے جا رہے تھے انہیں انتخابات میںہزیمت اٹھانی پڑی ہے ۔ بی جے پی کے عام امیدوار بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو رہے ہیں تو اپوزیشن کے بڑے بڑے چہرے اور نامور قائدین کو شکست کھانی پڑی ہے اور وہ عوام کی تائید حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ اب اپوزیشن جماعتوں کیلئے یہ وقت ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کریں اور اپنی خامیوں کا جائزہ لیں اور پوری دیانتداری اور فراخدلی کے ساتھ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کریں اور مستقبل کیلئے ایک جامع اور مبسوط حکومت عملی بناکر کام کریں اگر انہیں اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنا ہے ۔