اپوزیشن اور اسمبلی انتخابات

سنا ہے مل رہے ہیں کچھ نئے تحفے ، نئے وعدے
مگر ہم کو تو لوٹا دو وہی لمحے مسرت کے
اپوزیشن اور اسمبلی انتخابات
کسی بھی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے عوام کی تائید ضروری ہوتی ہے ۔ ان دنوں ہندوستان کی تمام اپوزیشن پارٹیاں مودی حکومت کو دوبارہ اقتدار سے روکنے کی اپنی دلی خواہش کے ساتھ مہا گٹھ بندھن کی باتیں کررہی ہیں لیکن ان پارٹیوں میں سے چند ایسی بھی ہیں جو اتحاد کے بجائے تنہا انتخابات لڑکر خود کو آزمانے کی کوشش کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں حکومت کا تختہ اُلٹنا تو کجا ووٹ کاٹنا بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ اپوزیشن کانگریس کو اپنی سیاسی طاقت کا اندازہ ہے ۔ اس لیے عظیم اتحاد کی تجاویز کو عزیز رکھتے ہوئے مختلف پارٹیوں کے قائدین سے بات چیت کی لیکن بہوجن سماج پارٹی سربراہ مایاوتی نے اتحاد کا حصہ بننے کے لیے سودے بازی سے کام لینے کی کوشش کی ۔ مایاوتی کے اس رویہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کانگریس قیادت کو ابھی سخت ہوم ورک کرنا ہے کیوں کہ وہ اتحادی پارٹیوں کو مضبوط رکھنے سے قاصر دکھائی دی ہے ۔ اب پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش ، راجستھان ، چھتیس گڑھ ، میزورم اور تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات ہیں ۔ مرکزکی مودی حکومت کے لیے سیمی فائنل ثابت ہوں گے ۔ اگرچیکہ بعض خانگی سروے میں بتایا گیا ہے کہ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کا موقف مضبوط ہوتے جارہا ہے ۔ ان ریاستوں میں مخالف حکمرانی لہر کی وجہ سے کانگریس کو اقتدار ملتا ہے تو پھر عام انتخابات میں بی جے پی کے خلاف مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس کو ایک نئی توانائی حاصل ہوگی ۔ اس مرتبہ 2014 کے برعکس سیاسی ماحول دکھائی دیتا ہے تو کانگریس کو کسی بھی علاقائی پارٹی پر انحصار کرنے کی نوبت نہیں آئے گی ۔ لیکن اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا کے لیے عوام کی رائے مختلف ہوتی ہے ۔ 2014 میں عوام کو دھوکہ دینا آسان تھا اب عوام نے اپنے حق میں ’ اچھے دن ‘ کا تجربہ حاصل کیا ہے تو دھوکہ کھانے سے باز ضرور آئیں گے ۔ مرکز کی سیاسی طاقت شخصی نوعیت کی ہے ۔ گروہی طاقت کے لیے کانگریس کو اپنی سیاسی بنیادیں مضبوط کرنے کی مشن میں شدت لانی ہوگی ۔ کانگریس کا مستقبل اب ملک کی پانچ ریاستیں تحریر کرنے جارہی ہیں ۔ 2019 کے انتخابات کے لیے اپوزیشن اتحاد کا انڈکس بتا رہا ہے کہ اپوزیشن کو عدم اتفاق کاخمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ اسمبلی انتخابات کے لیے اپوزیشن پارٹیاں اتحاد سے گریز کررہی ہیں ۔ لیکن وہ 2019 کے عام انتخابات میں ایک دل ہو کر بی جے پی کو اقتدار سے دور کرنے کی مہم چلاتے ہیں تو اس میں کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ عام انتخابات سے قبل یہ سوال ہی نہیں اٹھایا جانا چاہیے کہ آیا مایاوتی کے فیصلہ سے کانگریس کے عزائم کو دھکہ پہونچے گا ۔ اسمبلی انتخابات کا مرحلہ اور عام انتخابات کا مسئلہ دو مختلف عنوان ہیں ۔ اگر مایاوتی نے اسمبلی انتخابات میں کانگریس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو لوک سبھا کے وقت قریب آنے میں دیر نہیں لگے گی ۔ بی جے پی اور کانگریس نے اپنے رائے دہندوں کو یہ بتانے کی کوشش ضرور کی ہے کہ بی جے پی کے خلاف ان کا اتحاد قائم ہوگا ۔ جیسا کہ صدر کانگریس راہول گاندھی نے کہا ہے کہ مایاوتی نے اسمبلی انتخابات میں اتحاد سے انکار کیا ہے تو کوئی خاص بات نہیں ہے بلکہ وہ لوک سبھا انتخابات کے موقع پر ایک دوسرے کے قریب آئیں گے ۔ ریاستوں میں سیاسی پارٹیوں کا اتحاد مختلف موضوعات اور علاقائی اہمیت کے پیش نظر ہوتا ہے جب کہ عام انتخابات میں یہ اتحاد قومی سطح کا ہوگا۔ راہول گاندھی کو اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کی کامیابی کا یقین ہے ۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے علاوہ تلنگانہ میں کانگریس کو کامیابی کا یقین ہے تو پھر مرکز کا بھی منظر بدل جائے گا۔ اب یہاں سیاسی اہلیت اور نااہلی کا امتحان درپیش ہے ۔ اپوزیشن کا کردار اس وقت اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ ہندوستانی سیاست میں اپوزیشن کو بھی حکومت کے تمام سیاہ کارناموں سے عوام کو واقف کروانا ہوتا ہے ۔ اپوزیشن کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک اور عوام کے مفادات کی حفاظت کرے اور حکومت کی خرابیوں کو آشکار کرے ۔ مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن نے اب تک حکومت کے خلاف مضبوط محاذ نہیں کھولا حالانکہ حکومت کے کئی اسکامس سامنے آرہے ہیں ۔ رافیل معاہدہ کو بوفورس اسکام کا باپ قرار دیا جارہا ہے لیکن اپوزیشن اس مسئلہ کو سڑکوں پر لے آنے میں ناکام رہی ہے ۔۔