اپوزیشن اتحاد کی کوششیں

اُن سے نظر ملانے کی فرصت نہیں مجھے
اُٹھا ہے میرے دل سے جو پردا ابھی ابھی
اپوزیشن اتحاد کی کوششیں
بہار میں نتیش کمار کی بی جے پی سے دوستی کے بعد مخالفت پر اتر آئے سینئر جے ڈی یو لیڈر شرد یادو نے اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے ۔ حالانکہ شرد یادو کو پارٹی میں کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی بہار کے عوامی منتخب نمائندے ان کے ساتھ ہیں اس کے باوجود ان کی کوششوں کی اہمیت سے انکار نہیںکیا جاسکتا ۔ شرد یادو جنتادل یو کے سینئر لیڈر ہیں اور ان کا ادعا ہے کہ ملک کی 14 ریاستی یونٹیں اصولوں کی لڑائی میں ان کے ساتھ ہیں۔ شرد یادو نے گذشتہ دنوں پٹنہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ریاست کے عوام کی رائے کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے عوام نے جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی اور کانگریس اتحاد کو حکمرانی کا اختیار دیا تھا جسے نتیش کمار نے بی جے پی کو سونپ دیا ہے ۔ جے ڈی یو نے بھی شرد یادو کے خلاف بیان بازی شروع کردی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے تعلق سے جو فیصلہ چاہیں کرنے کو آزاد ہیں اور بی جے پی سے اتحاد کا فیصلہ کسی کا شخصی نہیں بلکہ پارٹی کا اجتماعی فیصلہ ہے ۔ اب نتیش کمار ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی مخالفت میں ملک بھر میں سرگرم ہونا چاہتے ہیں اور وہ اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش میں جٹ گئے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں جمعرات کو دہلی میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ ملک میں قدر مشترک کے اصولوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور فرقہ پرستی کو عروج حاصل ہو رہا ہے ۔ اس کانفرنس میں جو اظہار خیال کیا گیا اس سے قطع نظراس بات کی اہمیت ضرور ہے کہ ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کے مابین اتحاد کی کوششیں شروع ہوئی ہیں۔ حالانکہ یہ کوشش ایک کمزور گوشے سے شروع ہوئی ہے لیکن اس کو آگے بڑھانے اور ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دینے کی ذمہ داری اب تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے ۔ جو کوشش شروع ہوئی ہے وہ حالانکہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے لیکن پوری سنجیدگی اور دیانتداری کے ساتھ کوشش کرتے ہوئے اس کو وسعت دی جاسکتی ہے اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس کوشش کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی ذمہ داری ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں پر عائد ہوتی ہے ۔
ملک کے سامنے بہار میں عظیم اتحاد کی مثال موجود ہے ۔ یہاں آر جے ڈی ۔ جے ڈی یو اور کانگریس نے اتحاد کرتے ہوئے بی جے پی کو چاروں شانے چت کردیا تھا ۔ بی جے پی نے یہاں ساز باز کرتے ہوئے پچھلے دراوزے سے اقتدار حاصل کرلیا ہے ۔ یو پی میں جہاں اپوزیشن جماعتوں کے مابین وسیع تر اتحاد نہیں ہوسکا تھا وہاں بی جے پی اپوزیشن کے انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔ اب جبکہ ملک میںآئندہ عام انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے ایسے میں اگر اپوزیشن جماعتوں نے قبل از وقت ہی کوئی جامع اور موثر حکمت عملی اختیار نہیں کی اور اپنی صفوں سے انتشار کا خاتمہ نہیں کیا تو انہیں ایک بار پھر شکست و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اپوزیشن کی شکست فسطائی اورفرقہ پرست طاقتوں کی حوصلہ افزائی کی شکل میں سامنے آئے گی اور اس کا خمیازہ ملک کے عوام کو بھگتنا پڑیگا۔ اپوزیشن کی صفوں میں اگر اتحاد ہوتا ہے تو یہ کسی بھی جماعت کے انفرادی مفادات کی تکمیل کیلئے نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ اتحاد ملک کے مفاد میں ہونا چاہئے ۔ اس عزم کے ساتھ ہونا چاہئے کہ اس کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتوں کے عروج کو روکا جاسکے ۔ اس اتحاد کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ملک میں نراج اور بے چینی کی جو فضا پیدا کردی گئی ہے اس کو روکا جائے ۔ جب تک اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک بی جے پی یا نریندر مودی ۔ امیت شاہ کی جوڑی کو شکست دینا آسان نہیں ہوگا ۔ اس حقیقت کو سبھی جماعتوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
اپوزیشن جماعتوں کو نہ صرف یہ کہ آپسی اتحاد پر توجہ دینی چاہئے بلکہ اسے ابھی سے ایک ایسی جامع اور موثر حکمت عملی تیار کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ حکومت کو گھیرنے میں مدد مل سکے ۔ حکومت کا موقف مدافعانہ ہوجائے ۔ عوامی اہمیت کے حامل حساس مسائل پر ملک گیر سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ عوام میں حکومت کی وعدہ خلافیوں اور ملک کا شیرازہ بکھیرنے کی کوششوں کے خلاف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی جامع اور موثر حکمت عملی اور منصوبہ کے بغیر اپوزیشن کا اتحاد بھی کارگر ثابت ہونا مشکل ہوسکتا ہے ۔ اپوزیشن کے پاس ابھی وقت ہے اور وقت ختم ہونے سے پہلے اسے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔