اپوزیشن اتحاد مشکلات کا شکار ؟

گر انا اپنی رکھوگے اس طرح تم برقرار
یوں ہی ہر اک اتحاد اک داستاں بن جائے گا
اپوزیشن اتحاد مشکلات کا شکار ؟
ملک میں جیسے جیسے عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے سیاسی حالات میں تبدیلی کی کیفیت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ بی جے پی سے مقابلہ کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے باہمی اتحاد اور ایک عظیم محاذ تشکیل دینے کی کوششیں بھی تیز ہوتی جار ہی ہیںلیکن ان کوششوںمیں رکاوٹیں بھی اتنی ہی تیزی سے پیدا ہونے لگی ہیں۔ جس تیزی سے اپوزیشن قائدین اتحادکی کوششیں کر رہے ہیںاسی تیزی سے ان میں اختلافات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں این سی پی کے سربراہ شرد پوار کی جانب سے رافیل معاملت میں وزیر اعظم مودی کو عملا کلین چٹ دئے جانے پر خود ان کی پارٹی میں ناراضگی دکھائی دی اور ان کی پارٹی کے دو سینئر قائدین نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ بعد میں اس پارٹی نے اس بیان پر نقصان کو کم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن اس وقت تک جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا تھا ۔ شرد پوار کے اس بیان کے بعد یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں شردپوار کی شمولیت غیر یقینی دکھائی دیتی ہے اور وہ آخری وقت تک بی جے پی سے تعلق بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔ شرد پوار کے بعد اب بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے کانگریس سے اتحاد نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ انہوں نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کانگریس سے اتحاد کے بغیر تنہا مقابلہ کا اعلان کردیا ہے اور آئندہ عام انتخابات میں بھی وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کے تعلق سے قطعیت سے توثیق کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔ مایاوتی کے اس موقف سے بی جے پی قائدین میں امید کی کرن جاگنے لگی ہے کیونکہ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق اگر سماجوادی پارٹی ۔ بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ کانگریس یو پی میں اتحاد کرتی ہے تو وہاںاین ڈی اے اور بی جے پی کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن اگر یہ اتحاد نہیں ہوپاتا ہے تو پھر بی جے پی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑیگا ۔ اب اس اتحاد کی راہ میں رخنہ اندازی کی کوشش کی جانے لگی ہے ۔ حالانکہ اب بھی کانگریس قائدین اس اتحاد کے تعلق سے پرامید ہیں اور خود سماجوادی پارٹی سربراہ اکھیلیش یادو بھی اس اتحاد کیلئے ہر ممکنہ حد تک کوشش کرنے کا عہد کر رہے ہیں لیکن اس پر ابھی قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ایک بات قطعیت سے ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اگر مقامی سطح پرا ور ریاستی سطح پر حقیقت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد ہوجاتا ہے تو پھر 2019 میں بی جے پی کیلئے اقتدار تک کا سفر بہت مشکل ہوکر رہ جائیگا ۔ بی جے پی کو کئی ریاستوںمیں بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ شائد اسی وجہ سے بی جے پی پس منظر سے کوششیں شروع کرچکی ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہوسکے اپوزیشن اتحاد کو نقصان پہونچایا جائے اور اتحاد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔ اس صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں میںخود جذبہ پیدا ہونے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح سے اکھیلیش یادو اتحاد کو یقینی بنانے کچھ نقصان بھی برداشت کرنے کو تیار ہیںاس جذبہ سے تمام مخالف بی جے پی قائدین اور جماعتوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ راہول گاندھی نے بھی یہ واضح کردیا ہے کہ وہ خود کو وزارت عظمی امیدوا ر کے طور پر اپوزیشن پر مسلط کرنے کی کوشش نہیںکرینگے ۔اگر اتحاد میںشامل سبھی جماعتیں ان کے نام پر تیار ہوں تب ہی وہ وزارت عظمی پر فائز ہونگے ۔ یہ بھی اتحاد کو بنانے اور اس کو مستحکم کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ اسی طرح کسی ریاست میںکچھ نشستوں کیلئے اگر کوئی سمجھوتہ کرنے کی نوبت آتی ہے اور اگر اس سے بی جے پی کا راستہ روکا جاسکتا ہے تو اس سے کسی بھی جماعت کو گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ ملک کے عظیم تر مفاد میں ہونے والا سمجھوتہ ہوگا اور ایسا کرنا چاہئے ۔
فی الحال اپوزیشن اتحاد کی راہ میں مشکلات نظر آتی ہیں ۔ حالانکہ ان کا دور کرلینا زیادہ مشکل نہیںہے لیکن اتنا آسان بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ اس کیلئے ہر جماعت کو اپنے طور پر کسی ایثار و قربانی کے جذبہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک ہر جماعت بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے واحد نکاتی ایجنڈہ پر کارفرما نہیں ہوگی اس وقت تک اتحاد کو قطعیت دینا مشکل سے مشکل ہی ہوتا رہے گا ۔ اپوزیشن جماعتیں اگر باہمی اختلافات اور اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کیلئے تیار ہوجاتی ہیں تو پھر بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی زیادہ مشکل نہیں رہ جائیگی اور بی جے پی کیلئے 2019 میں اقتدار تک کا سفر مشکل ہوتا جائیگا ۔ ایسا کرنا سبھی مخالف بی جے پی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے جسے بہر حال پورا کیا جانا چاہئے ۔