آندھراپردیش میںصدر راج

جب چمن میں بھی بہ انداز قفس تحدید ہے
سوچتا ہوں طاقتِ پرواز لے کر کیا کروں
آندھراپردیش میںصدر راج
مرکزی کابینہ نے بالآخر آندھرا پردیش میں صدر راج نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس سلسلہ میں گذشتہ دنوں جب کرن کمار ریڈی نے وزارت اعلی اور کانگریس کی رکنیت سے استعفی پیش کیا تھا اس وقت تک مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں۔ درمیان میں یہ اطلاعات بھی عام تھیں کہ کانگریس پارٹی عبوری مدت کیلئے حکومت کی تشکیل کے امکانات پر بھی غور کر رہی ہے اور کانگریس کے کئی قائدین دونوں ہی ریاستوں میں وزارت اعلی کی کرسی حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں کئی قائدین کے نام بھی لئے جارہے تھے ۔ تاہم یہ امکان ہی زیادہ مستحکم تھا کہ ریاست میں صدر راج نافذ کردیا جائیگا ۔ مرکزی کابینہ نے آج صبح منعقدہ اپنے اجلاس میں ریاست میں صدر راج کے نفاذ کو منظوری دیدی اور امکان ہے کہ راشٹرپتی بھون سے اس سلسلہ میں اعلامیہ جاری کردیا جائیگا ۔ آندھرا پردیش میں تقریبا 41 سال کے بعد صدر راج نافذ کیا گیا ہے کیونکہ اب یہاں متحدہ آندھرا پردیش کی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کو عملا اکثریت حاصل نہیں رہ گئی ہے ۔ حالانکہ کانگریس نے سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت چلائی تھی لیکن تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد اس کو ارکان اسمبلی کے انخلا کا سامنا ہے جو دوسری جماعتوں اور خاص طور پر سیما آندھرا میں تلگودیشم سے وابستگی اختیار کر رہے ہیں ایسے میں کانگریس کی اکثریت ختم ہوگئی ۔ چونکہ ابھی تلنگانہ ریاست باضابطہ طور پر وجود میں نہیں آئی ہے اس لئے یہاں علیحدہ حکومت بنانے کا امکان ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ تلنگانہ میں بھی بعض کانگریس قائدین تلنگانہ راشٹرا سمیتی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ حالانکہ کانگریس میں ٹی آر ایس کے انضمام کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اس تعلق سے ابھی کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوا ہے ۔ درمیان میں کسی نہ کسی وجہ سے دونوں جماعتوں کے مابین تعلقات میں کشیدگی بھی پیدا ہو رہی ہے ۔ ٹی آر ایس کے ایک رکن اسمبلی کی کانگریس میں شمولیت سے ٹی آر ایس کے حلقوں میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور ٹی آر ایس کے تقریبا تمام قائدین اور کیڈر پارٹی کے کانگریس میں انضمام کی مخالفت کر رہے ہیں۔
چونکہ کرن کمار ریڈی کے استعفے اور خود کانگریس پارٹی کی رکنیت سے بھی استعفے کے نتیجہ میں کانگریس پارٹی کیلئے بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور حالات پارٹی کے قابو میں نظر نہیں آتے ایسے میں کانگریس اعلی کمان نے ریاست میں صدر اج کی منظوری دینے سے قبل اپنے طور پر تمام امکانات کا جائزہ لیا تھا ۔ اس نے سیما آندھرا اور تلنگانہ علاقوں کے قائدین سے بات چیت کی تھی اور کرن کمار ریڈی کے جانشین کے انتخاب پر غور کیا تھا ۔ ایک موقع پر مرکزی وزیر سیاحت مسٹر کے چرنجیوی کا نام لیا جارہات ھا کہ وہ چیف منسٹر ہونگے ۔ چرنجیوی نے بھی یہ ذمہ داری قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کردی تھی تاہم چونکہ کانگریس کو اکثریت باقی نہیں رہ گئی ہے اس لئے کانگریس نے حکومت سازی سے گریز کیا ہے اور اس نے صدر راج کی حمایت کردی ہے ۔ کانگریس کے کچھ ارکان اسمبلی اور سابق وزرا تلگودیشم پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں اور مزید تقریبا ایک درجن سے زائد ارکان اسمبلی کانگریس سے ترک تعلق کرکے تلگودیشم میں شامل ہونا چاہتے ہیں ایسے میں کانگریس نے کسی امکانی ہزیمت سے بچنے کیلئے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کو ترجیح دی ۔ اس کے علاوہ اب کسی بھی وقت انتخابات کا شیڈول جاری کیا جاسکتا ہے جس کے ساتھ ہی انتخابی ضابطہ اخلاق بھی نافذ ہوجائیگا ۔ ایسے میں جو حکومت تشکیل دی جاتی وہ عوامی فلاح و بہبود کی کسی بھی اسکیم کا اعلان کرنے کے موقف میں نہیں ہوتی ۔ اس پہلو کو بھی نظر میں رکھتے ہوئے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یہ نہ صرف حالات کے مطابق کیا گیا فیصلہ ہے بلکہ یہ کانگریس پارٹی کیلئے مجبوری میں کیا گیا فیصلہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔
اب جبکہ ریاست میں صدر راج نافذ ہوگیا ہے اور اسمبلی کو معطل رکھا گیا ہے ایسے میں تمام اختیارات گورنر کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں ۔ آئندہ ایک ہفتے یا دس کے اندر انتخابی شیڈول جاری ہوسکتا ہے اور انتخآبی ضابطہ اخلاق نافذ ہوجائیگا ایسے میں صدر راج کے نافذ ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور قائدین خاص طور پر وزرا کیلئے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے امکانات کم رہ گئے ہیں۔ اب ریاست میں انتخابات کے انعقاد اور انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کی ذمہ داری گورنر پر عائد ہوتی ہے ۔ ریاستی گورنر مسٹر ای ایس ایل نرسمہن نے ہی سب سے پہلے وزارت داخلہ سے سفارش کی تھی کہ موجودہ حالات میں ریاست میں صدر راج نافذ کیا جانا چاہئے ۔ مرکز نے گورنر کی سفارش کو قبول کرتے ہوئے صدر راج کے نفاذ کو منظوری دیدی ہے ۔ یہ موجودہ حالات میں ایک درست اور واجبی فیصلہ ہی