آفتابِ غوثیت کی درخشانیاں

مخلوق کی ہدایت و دستگیری کیلئے یوں تو اللہ تعالیٰ کے بے شمار اولیاء کرام دنیا میں آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے لیکن ۴۷۰ ؁ ہجری میں رمضان المبارک کی ایک ارجمند ساعت میں بمقام گیلان شیخ عبدالقادر کے نام اور غوث اعظم ؓ کے لقب سے آسمان ولایت پر ایک عظیم ہستی نیرِ درخشاں بن کر طلوع ہوی جس کی تابناک کرنوں نے از افق تا بہ افق اجالا ہی اجالا کردیا اور جس کی عبقریت کے آستانے پر ہر زمانے میں سجودِ نیاز لُٹائے گئے جس کی شوکتِ اقتدار کا پرچم چار دانگ عالم میں آج بھی لہرا رہا ہے۔ جس کے نقوش قدم رہروان جادئہ محبت کیلئے آج بھی نشان راہ اور گم کردگان راہ ہدایت کیلئے ہر زمانہ میں منزل مراد ہیں۔ پانچویں صدی ہجری میں جبکہ یونانی فلسفہ کے زیر اثر عقائد و اعمال کی بنیادیں متزلزل ہورہی تھیں باطنیوں کی دہشت انگیزیوں کے نتیجے میں زندگی دھماکہ خیز بن گئی تھی اور امت مسلمہ مختلف فرقوں میں منقسم ہوکر افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی تھی ایسے وقت میں جو قد آور شخصیت قلندرانہ جمال اور سکندرانہ جلال کے ساتھ میدان کارزار میں آئی وہ حضرت غوث اعظم ؓ ہی کی ذات گرامی تھی۔ آپ ہی نے عروس حیات کی برہم زلفوں کو سنوارا اور خود حیات کو بھی لذت حیات سے آشنا کیا۔ آپ ہی نے زندگی کیلئے نئے افق دریافت فرمائے اور نئی سمت سفر متعین فرمایا۔ اور زندگی کی اس نہج سے تعمیرو تہذیب کی کہ زندگی جرأت آزما ہونے کے ساتھ ساتھ جرأت آموز بھی ہوگئی۔ کفر و الحاد کی بڑھتی ہوی یلغار اور ذہنی و فکری آوارگی کے پر آشوب دور میں حالات کی ناسازگاری اور زمانہ کے بگڑتے ہوے تیور کی کچھ پرواہ کئے بغیر آپ اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ میدان عمل میں کود پڑے اور لسان و قلم کے جہاد کے ساتھ ہر محاذ پر ان تمام فرقوں سے نبرد آزمائی فرمائی جو اسلام کی مسلمہ حقیقتوں کو سبوتاج کر رہے تھے۔ آپ نے کوئی نیا دین ہرگز پیش نہیں فرمایا بلکہ نخل اسلام کی جوڈالیاں پیرہن برگ سے عُریاں ہونے چلی تھیں اور اس کے جو پھول مرجھانے کے قریب تھے ایک فرض شناس باغبان کی طرح آپ نے شجر اسلام کی شادابی واپس لانے کیلئے اپنی رگِ حیات کا ایک ایک قطرئہ خون اس کی جڑوں میں نچوڑ دیا اور ملت کی منتشر توانائیوں کو ایک مرکز پر مجتمع کرنے کے لئے اپنی پوری زندگی دائو پر لگادی ؎
زمانہ مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک
ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے
اسی طرح اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر آپ نے ملت بیضاء کو جو افتخار و سربلندی دی اور دین کو جو حیات نو عطا فرمائی ہے اسی بناء پر آپ ’محی الدین‘‘ (یعنی دین کو پھر سے تازگی دینے والے) کے لقب سے یاد فرمائے جاتے ہیں۔ نسبی شرافت ‘ خاندانی وجاہت ‘ علمی جلالت‘ عملی عظمت ‘ کمال ولایت اور کثرت کرامت کی جامعیت جیسی خصوصیات نے آپ کو اولیاء اللہ میں وہ امتیازی مقام دیا ہے کہ شاید ہی دیگر اولیاء کو حاصل ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ صاحبان کشف و حال اولیاء متقدمین نے آپ کے ظہور کی بشارتیں دیں اور بڑے بڑے باکمال اولیاء متاخرین میں سے ہر ایک آپ کی مقدس دعوت کا نقیب اور آپ کی مدح و ثنا کا خطیب رہا ہے۔
صاحب قلائد الجواہر نے لکھا ہے کہ اولیاء کرام میں سے جنھوں نے بھی آپ کی بارگاہ ولایت مآب میں اپنے سر تعظیم کو خم کرلیا اور ادب سے آپ کے قدموں کیلئے اپنے دوش اور سر کو پیش کردیا ان میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے تاجدار ولایت بنا کر منزل رفیع پر فائز فرمادیا۔ علامہ عزالدین بن سلامؒ فرماتے ہیں کسی ولی کی کرامات و تصرفات اس قدر تواتر کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں جتنی کہ حضرت غوث اعظم ؓ کی کرامات ثقات سے منقول ہیں۔ شاید ہی کسی دوسرے ولی اللہ کے بارے میں مستند تحریروں کا اتنا ذخیرہ موجود ہو۔ آپ کی زندگی انسانیت کی ہدایت و دستگیری ‘ مصیبت زدوں کی مشکل کشائی اور دردمندوں کی چارہ جوئی کیلئے وقف تھی۔ آپ نے جس پر بھی اپنی نظر کیمیا اثر ڈالی تو جنم جنم کا پاپی بھی ولی کامل بن گیا۔ جس نے قطرہ مانگا آپ نے اسے دریا بخش دیا۔ جس شخص کو آپ نے نظر بھر کر دیکھ لیا تو وہ مست مئے الست ہوگیا۔ غرض تادم آخر ہزاروں انسانوں کی تکلیف میں امداد فرمانے اور بے شمار تشنگان معرفت کو اپنے دریائے فیض سے سیراب فرماتے رہنے کے بعد بالآخر ربیع الآخر ۵۶۱ھ؁ کی گیارہ یا سترہ تاریخ آپ نے جام وصال حق نوش فرمایا آپ کی تاریخ ولادت اور مقدار عمر کو ایک عربی شاعر نے بڑی خوبی سے پیش کیا ہے جس سے تاریخ وصال خود بخود نکل آتی ہے ؎
ان باز اللہ سلطان الرجال
جاء فی عشق و مات فی کمال
۴۷۰ ۹۱
آج جبکہ پھر امت مرحومہ آپس میں دست و گریباں ہے۔ آج جبکہ پھر مذہب کے مسلمہ اصولوں سے انحراف کا چلن عام ہورہا ہے۔ آج جبکہ پھر اپنے ہی لوگ حُرمتِ اسلام کی غارتگری پر تل گئے ہیں۔ آج جبکہ پھر دین میں سودے بازی ہورہی ہے اور مذہب کا پھر استحصال کیا جارہا ہے۔ پھولوں کی قبا آج بھی چاک ہے ‘ گلوں کے پیرہن کو آج بھی حاجت رفو ہے۔ نرگس کی آنکھ آج بھی بصارت کو رو رہی ہے۔ حضرت غوث اعظم ؓ کی تعلیمات ہی ملت کیلئے مشعل ہدایت بن سکتی ہیں۔ آپ ہی کی ہدایات درد مندوں کیلئے درماں اور بے سہاروں کیلئے سہارا ثابت ہو سکتی ہیں۔ جراحت دل کا اندمال آپ ہی کے شفاخانہ میں میسر آسکتا ہے۔ اور آپ ہی کی روحانی رہبری میں خستگانِ راہ منزل مراد تک پہونچ سکتے ہیں کیونکہ بارگاہ الٰہی سے آپ کو ولایت کا بے مثال تاج ابدی اور محبوبیت کا بے نظیر طغرائے امتیاز عطا فرمایا گیا ہے اور آپ ہی غوثیت عظمیٰ کے مقام رفیع پر فائز ہیں ؎
غوث اعظم ! بمنِ بے سرو ساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبۂ ایماں مددے
سرزمین بغداد میں آرام فرما روحانیت کے اس تاجور اور قادریہ سلسلۂ طریقت کے صدر نشین کی حکمرانی کا آج بھی یہ عالم ہے کہ ہر سال جب بھی ربیع الآخر کا مہینہ آتا ہے تو دنیا بھر کے گوشہ گوشہ میں بالعموم اور ھندوستان کے قریہ قریہ میں بالخصوص بلا لحاظ مذہب و ملت آپ کے عقیدت مند بپابندی آپ کی یاد بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں اور عوام و خواص غرباء و مساکین کی ضیافت طعام کرکے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں جو گیارھویں شریف سے موسوم ہے۔ علامہ امام یافعی ؒ نے اپنی کتاب قرۃ الناظرہ میں لکھا ہے کہ حضرت غوث اعظمؓ نے ایک دفعہ حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت منانے کا گیارہ تاریخ اھتمام فرمایا تھا جس کو اس قدر قبولیت حاصل ہوی کہ آپ نے ہر ماہ کی گیارہ تاریخ یہ محفل ذکر و طعام بطور معمول مقرر فرمادی۔ چونکہ اکثر سیرت نگاروں نے آپ کی تاریخ وصال بھی گیارہ ہی لکھی ہے اس لئے آپ کے بعد گیارھویں شریف کو مزید اس قدر اہمیت اور مقبولیت ہوگئی کہ ماہ ربیع الثانی کا نام عرف عام میں بدل کر گیارھویں شریف کا مہینہ ہوگیا اور لوگ فرط عقیدت سے آپ کو گیارھویں والے سرکار کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ اپنی کتاب ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ گیارھویں شریف ہمارے ملک میں مشہور ہے اور ہمارے مشائخ کا بھی یہ معمول رہا ہے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آخری میں وہ مقبول عام قطعہ پیش ہے جس میں ‘ حضرت غوث اعظم ؓ کی بارگاہ بیکس پناہ میں داد و امداد طلب کرتے ہوے اپنا عاجزانہ نذرانہ عقیدت یوں پیش کیا گیا ہے ؎
یا قطب یا غوث اعظم یا ولی روشن ضمیر
بندہ ام در ماندہ ام جز تو نہ دارم دستگیر
بردر درِگاہ والا سائل ام اے آفتاب
خاطرِ ناشاد را کن شاد یا پیران پیر