آزاد ہند کی تصویر اور اس کی اصلاحی تدبیر

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ (قسط اول)

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولہ نہیں کرتے
اس نظام کی اسی بنیاد نے حقیقی نظام جمہوریت کو بہت نقصان پہونچایا ہے۔ سروں کو گننے کے بجائے تولہ جائے تو اس نظام کی کامیابی کے کیا کہنے و نظامِ جمہوری جس کو عام افراد نے نہیں بلکہ صاحبان فکر و فہم اور عقل و دانش نے بڑے غور و خوض اور آپسی صلاح و مشورہ سے معاشرہ کی صلاح و فلاح کو پیش نظر رکھ کر چنا ہو، حقیقی معنی میں ایسا نظام جمہوریت ہی کامیاب ہو سکتا ہے جس کا ہدف رعایہ کی خدمت اور ان کی صلاح و فلاح ہوتا ہے نہ کہ ناپسندیدہ راستوں سے مال کمانا ، اپنی اور اپنے خاندانوں کی فکر کرنا۔

یہی وجہہ ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان کو آزاد ہوئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ ہو چکا، اس کے باوجود ملک کی آزادی کا جو خواب بلا لحاظ مسلم و غیر مسلم سبھوں نے دیکھا تھا وہ اس معنیٰ میں ضرور شرمندۂ تعبیر ہوا کہ ہندوستان کے باسیوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی لیکن، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی۔ آپس میں ہیں بھائی بھائی کے خواب کی کوئی تعبیر آج تک نہیں مل سکی۔ یہ انسانیت نواز نعرہ زباں زد خاص و عام تو رہا بلکہ آج بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کبھی یہ نعرہ بامعنیٰ رہا ہو۔ لیکن اب تو یہ نعرہ صرف ایک نعرہ ہے جو بے معنیٰ ہے۔اس کی معنویت کی تلاش بھی بے سود ہے، ظلم و جور ، نفرت و عداوت کی تاریکی نے کچھ ایسا پڑائو ڈالا ہے کہ عدل و انصاف کی روشنی اس وقت بظاہر معدوم ہے ۔

انسانیت، بھائی چارہ، بڑے خوبصورت عنوان ہیں لیکن انسان دشمن طاقتوں نے اس کے حسن کو اپنی بدمزاجی و بدکرداری سے داغدار کر دیا ہے اس لئے انسانیت و بھائی چارہ کی سماج و معاشرہ میں کوئی عملی تصویر دکھائی نہیں دیتی۔الاماشاء اللہ کہیں اس کی کوئی جھلک دکھائی بھی دے تو شاید اس کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ ملک کے کچھ ناعاقبت اندیش رہنمائوں نے، مذہب و قوم کی آڑ میں نفرت کا کچھ ایسا زہر گھولاہے کہ اس وقت پورا سماج زہر آلود ہو چکا ہے۔ دین و مذہب، ذات، پات کے حوالے سے انہو ںنے انسانوں کو تقسیم کیا۔جہاں ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد جاری تھی وہیں انسان دشمن طاقتیں انسانوں کے درمیان نفرت کے تخم بو رہی تھیں ،چونکہ اکثر افراد اتحاد وبھائی چارہ کے قائل تھے اس لئے نفرت کا وہ تخم اس وقت بار آور نہیں ہو سکا تھا لیکن انسان دشمن طاقتوں کی کوششیں اس سے سرد نہیں ہوئیں ،

بلکہ وہ نفرت وعداوت دشمنی وتعصب کے پانی سے مسلسل اس زہر ناک تخم کی آبیاری میں جی جان سے کوشش کرتے رہے،آخر کا ر وہ کامیاب ہوئے ، ان کی جدوجہد رنگ لائی اور وہ نفرت کا تخم اب ایک گھنے شجر کی صورت اختیار کرگیا جس کی چھائوں انسانوں کو راحت پہنچانے کے بجائے ضرر ونقصان سے دوچار کررہی ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جنہوں نے بھائی بھائی بن کر ملک و قوم کی خدمت کرنے کا عہد کر کے آزادی کی جنگ جیتی تھی وہی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے، ان کی پیاس پانی سے نہیں بلکہ انسانی خون سے بجھنے لگی۔ انہوں نے وہ بھید بھائو پیدا کئے کہ ایک بھائی خود اپنے بھائی کے خون کا پیاسا ہوگیا، نفرت کی یہ مہم وقفہ وقفہ سے ملک کے مختلف حصوں میں چلائی جاتی رہی، نفرت کی اس کہانی کو بار بار دھرایا جاتارہا۔ جس سے ملک کے بعض حصوں میں فسادات بھڑک اٹھتے رہے ہیں اور مسلم اقلیت کے خون کو جس میں حلال کر لیا جاتارہا ہے ، ان کی جان، ان کے مال یہاں تک کہ ان کی عزت و آبرو سے فخریہ طور پر کھلواڑ ہوتا رہا ہے۔

جمہوریت پسند انسانوں کی طرف سے کچھ سوالات اٹھتے ہیں یقینا یہ سوالات سنجیدہ فکر ،سلیم الفطرت افراد کو جھنجھوڑتے ہیں کہ کیا اسی کا نام آزادی ہے، اور کیا یہی کچھ کرنے کو ہم نے ملک آزاد کرنے کی مہم چلائی تھی۔ اور کیا یہی کچھ سہنے کو مظلوم اقلیتوں نے اپنے جان و مال کی قربانی دی تھی۔ یہ وہ سوالات ہیں جو صدا بصحرا، ثابت ہو رہے ہیں،ان کا کوئی جواب ارباب حکومت کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی ان کا حل تلاش کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی ہے،جیسے جیسے اس ملک کی آزادی کی عمر بڑہتی جارہی ہے ویسے ویسے یہ سوالات مزید اپنے جواب کے متمنی ہوتے جارہے ہیں۔ کہنے کو تو ہندوستان ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے لیکن اس آزاد ملک کے مظلوم باسیوں کی زندگی غلاموں سے بدتر ہے۔

جبل پور کے فسادات نے سارے ہندوستان کے باسیوں کے سامنے جو اپنی دردناک داستان پیش کی تھی اور جس نے ہندوستان کے سیکولر کردار کو داغ دار کردیا تھا اس کا کوئی مداوا ارباب حکومت کی طرف سے جیسے کچھ ہونا چاہئے تھا نہیں ہوسکا اور یہ داغ جمہوریت کے دامن سے نہیں دھل سکا تھا ۔ اس کے بعد بھی ملک کے مختلف حصوں میں فسادات ہوتے رہے ،اقلیتیں لٹتی پٹتی رہیں،ملسل وار ہوتے رہے ،ایک وار سہہ کر سنبھلنے بھی نہیں پاتے کہ دوسرا وار ان کو زخموں سے چور کردیتا ،لیکن مسلم اقلیت نے یہ سب ظلم سہتے ہوئے اپنے ملک ہندوستان کی محبت کو سینہ سے لگائے رکھا،اس کی خدمت اور اس کی نیک نامی کیلئے ہرطر ح کی قربانی دی اور ہر شعبہ میںتاریخ ساز کارنامے انجام دئیے ، ملک پر جب بھی دشمنوں نے حملہ کیا تو یہ مسلمان ہی تھے جو سینہ سپر ہوکر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے رہے اور اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر ملک کی حفاظت کیلئے قربانیاں دیتے رہے ابھی قریبی زمانے میں جس نے ملک کی حفاظت کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا وہ بھی مسلم اقلیت کا ہی ایک فرد رہا ہے ۔ اس کے باوجود مسلم اقلیت پر جوظلم ڈھائے گئے ہیں وہ ایسے کرب ناک ہیں جو کسی بھی دردمند انسان کو ملول ورنجیدہ کرنے کیلئے کافی ہیں ،فسادات کے مناظر جب سامنے آتے ہیں تو ایک دردمند انسان اشک بار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ حالیہ برسوں میں گجرات، وٹولی (بھینسہ)، مظفر نگر کے منصوبہ بند فسادات نے رہی سہی ہمت توڑ دی ہے۔

بابری مسجد کا منصوبہ بند انہدام بھی مسلم اقلیت پر ظلم کی ایک مثال ہے ،ہندوستان کی جبین عظمت پر ایک بد نما داغ ہے جو ملک کے سیکولر کردار پر ایک کاری ضرب ہے جس کا گھائو اب تک نہیں بھر سکا ہے ۔بابری مسجد کا انہدام ہر سیکولر ذہن وفکر رکھنے والے کیلئے ایک کھلا چیلنج ہے ۔وہ ملک جس کی بنیاد میں انسانیت کے احترام کے ساتھ ہر مذہب اور ہر مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کا پاس ولحاظ اور ان کا تحفظ شامل رہا ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت نے اس بنیاد کو متزلزل کردیا ہے ۔بابری مسجد کا انہدام کوئی معمولی بات نہیں اس نے تو عبادت گاہوں کی بے احترامی کا دروازہ کھول دیا ہے اور آزاد بھارت کی سیکولر بنیادوں کو منہدم کردیا ہے ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک دشمن طاقتوں کا ایجنڈہ ہندوستان کے دستوری ایجنڈہ کے بالکلیہ مغائر ہے حکومتوں کے نظام میں عدلیہ کا رول انتہائی اہم اور نازک ہوتا ہے ،انصاف کی راہ پر چلنا گویا تلوار کی دھار پر چلنے کے برابر ہے ،عدالتوں کے فیصلے تو’’ دودھ کا دودھ پانی کا پانی‘‘ کرتے ہیں لیکن شاید پہلی مرتبہ بابری مسجد کیس میں عدلیہ نے جو رول ادا کیا ہے اس نے تو سراسر عدل وانصاف کا خون کیا ہے اور دن کے اجالے میں انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے ۔ اس جانبدارانہ فیصلہ سے اب تو عدالتوں سے بھی یقین اٹھتا جارہا ہے ،کیونکہ اس نے مظلوموں کی دادرسی کے بجائے ملک دشمن طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں ۔

یہ دیش اب جس رخ پر جارہا ہے اس کے نتائج بڑے بھیانک ہوسکتے ہیں ،ہمارے قدم ایک ایسی کھائی کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ملک وقوم کیلئے موت کا کنوا ں ثابت ہوسکتا ہے ان حالات میں مستقبل بظاہر تاریک ہے۔ لیکن اللہ کی ذات مظلوموں کی بہت بڑی آس ہے اس نے اپنی زمین پر کفر و شرک کو گوارہ کیا ہے لیکن ظلم کو نہیں۔ ظالم ہمیشہ اپنے انجام کو پہونچتے رہے ہیں، ہندوستان میں جنہوں نے کمزوروں پر ظلم ڈھایا ہے اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ وہ اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید