آدرش اسکام ‘ حقائق کا انکشاف ضروری

یہ کیا پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
آدرش اسکام ‘ حقائق کا انکشاف ضروری
آدرش ہاوزنگ سوسائیٹی اسکام کی تحقیقاتی کمیشن رپورٹ کے تعلق سے ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے جنرل سکریٹری راہول گاندھی کی مداخلت بھی موثر ثابت نہیں ہوئی ہے اور مہاراشٹرا کی حکومت نے اس رپورٹ کا عملا صرف ایک حصہ قبول کیا ہے ۔ ابتداء میں تو حکومت مہاراشٹرا نے اس رپورٹ کو یکسر ہی مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ اس نے عوامی مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا ہے ۔ حکومت نے اس وقت یہ واضح نہیں کیا تھا کہ کرپشن کے الزامات پر تحقیقات کو مسترد کرنا کس طرح سے عوام کے مفاد میں ہوسکتا ہے ۔ حکومت مہاراشٹرا سے اس تعلق سے کئی سوال بھی ہوئے تھے لیکن اس نے خاموشی اختیار کی تھی اور کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔

رپورٹ کے استرداد پر حکومت پر کوئی گوشوں سے تنقیدیں ہوئی تھیں اور الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کرپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں اور عہدیداروں کو بچانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے کانگریس چیف منسٹرس کے اجلاس کے دوران حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اس فیصلے پر مہاراشٹرا حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ راہول گاندھی کی مداخلت کے بعد اب مہاراشٹرا حکومت نے اس رپورٹ کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ صرف ایک حصے کے تعلق سے اس نے یہ فیصلہ کیا ہے ۔ حکومت اس معاملہ میں کرپٹ اور بدعنوان عہدیداروں کے خلاف کارروائی کیلئے تیار ہوگئی ہے لیکن اس نے سیاستدانوں کو چھوڑدینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس اسکینڈل میں کانگریس کے چار سابق چیف منسٹرس کے نام سامنے آئے تھے ۔ اس کے علاوہ دو سابقہ اور موجودہ وزرا کو بھی تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ماخوذ کیا تھا ۔

حکومت مہاراشٹرا ان سیاستدانوں کو چھوڑ کر صرف عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا منصوبہ رکھتی ہے جو درست فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔حکومت کو اس طرح کا امتیاز پر مبنی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ کرپشن چاہے عہدیداروں کا ہو یا سیاست دانوں کا سبھی کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہوئے مکمل حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے بے نقاب ہوسکے ۔
ممبئی میں آدرش ہاوزنگ سوسائیٹی در اصل ان فوجیوں اور ان کے افراد خاندان کیلئے تعمیر کی گئی تھی جنہوں نے ملک کیلئے جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ لیکن اس سوسائیٹی میں جو بندر بانٹ ہوئی ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔ سیاستدانوں نے نہ صرف خود اس سے استفادہ کیا بلکہ اپنے رشتہ داروں کو بھی انہوں نے اس میں فلیٹس دلائے ۔ عہدیداروں نے بھی اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے فلیٹس حاصل کئے ۔ کچھ عہدیداروں نے ان فلیٹس کے حصول کیلئے جھوٹی اطلاعات بھی فراہم کیں۔ ان میں امریکہ میں نامناسب سلوک کا شکار ہونے والی سفارتکار دیویانی کھوبر گاڑے بھی شامل ہیں۔ ان سب معاملات کو حکومت مہاراشٹرا نے تحقیقات کے بعد برفدان کی نذر کردینے کا فیصلہ کیا تھا اور تحقیقاتی رپورٹ مسترد کردی گئی تھی ۔ لیکن راہول گاندھی کی مداخلت کے بعد اب صرف ایک حصے کو قبول کیا گیا ہے اور سیاستدانوں کو پھر بھی بخشا جا رہا ہے ۔ یہ کرپشن کے خلاف کانگریس کی لڑائی اور جدوجہد کا قلع قمع کرنے کیلئے کافی ہے ۔ کانگریس عہدیداروں کو تو کرپشن کی وجہ سے نشانہ بنانے کیلئے تیار ہے لیکن وہ خود اپنے قائدین اور سابق چیف منسٹروں کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کیلئے تیار نظر نہیں آتی اور ان کے کرپشن اور ان کی غلط کاریوں کی پردہ پوشی کیلئے ہر ممکنہ کوشش کر رہی ہے ۔ کانگریس کا یہ رویہ ایک طرح سے دوہرا معیار ہے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔ کانگریس کرپشن کے خلاف جد و جہد کا بھی اعلان کرتی ہے تو یہی کانگریس اپنے سابق چیف منسٹروں کے کرپشن کو پارٹی کے اعلی قائدین کی مداخلت کے باوجود پوشیدہ رکھنے اور انہیں غلط کاریوں کی سزاوں سے بچانے کی کوشش بھی کرتی ہے ۔

یہی کرپشن کے خلاف لڑائی اور لڑائی کے نعروں کی حقیقت ہے ۔
کرپشن ہندوستان کی رگوں میں سرائیت کرگیا ہے ۔ کرپشن کی وجہ سے ملک کی ترقی اور بہتری متاثر ہوتی جا رہی ہے اور ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود کرپشن کے خلاف لڑائی اور جدوجہد ایک طرح سے صرف نعروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ کوئی بھی جماعت ایسا لگتا ہے کہ اس ناسور اور لعنت کے خاتمہ کیلئے سنجیدہ نہیں ہے اور نہ کوئی جماعت چاہتی ہے کہ اس کی صفوں میں جو بد عنوان اور کرپٹ شخصیتیں موجود ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکے ۔ حکومت مہاراشٹرا نے جو آدرش اسکام کی رپورٹ کا صرف ایک حصہ قبول کیا ہے وہ اس کی مثال ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملہ میں دوہرا معیار اختیار کرنے کی بجائے کرپشن کے خلاف لڑائی اور جدوجہد میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ۔ کرپشن میں ملوث کوئی بھی سیاستدان چاہے کتنے ہی اعلی مرتبہ کا حامل ہو اور کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو اس کے خلاف قرار واقعی کارروائی سے حکومت کو فرار اختیار نہیں کرنا چاہئے ۔ ایسا کرنا حکومت کا فرض ہے اور یہ ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کیلئے بھی اہمیت کا حامل ہے ۔