اُدھر اللہ سے واصل ، اِدھر مخلوق میں شامل

حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حوض کوثر کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟۔ انھوں نے جواب دیا ’’ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، چار نہیں، پانچ نہیں، بار بار سنا ہے، جو اس کو جھٹلائے اللہ تعالی اسے اس کا پانی پینا نصیب نہ کرے‘‘۔
اللہ تعالی کی نعمتوں میں نہر کوثر کی نعمت بھی شامل ہے۔ یہ جنت کی نعمتوں میں سرفہرست ایک نہر ہے، جس کے کنارے پر ترشے ہوئے موتیوں یا ہیروں کے قبے بنے ہوئے ہیں۔ اس کی تہہ میں کنکریوں کی بجائے موتیاں ہیں۔ اس کے کنارے سونے کے ہیں۔ اس کا پانی برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جانے والی نعمتوں میں علم اولین و آخرین کی نعمت بھی شامل ہے۔ اللہ تعالی عالم الغیب والشہادۃ نے آپﷺ کو منتہائے علم پر فائز فرمایا ہے اور آپﷺ کو غیب کی بے شمار باتوں کا علم بخشا گیا ہے۔ ان نعمتوں میں سفر معراج کی نعمت بھی شامل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے اور بشری تقاضوں سے معمور ہونے کے باوجود آپﷺ کو جسم اطہر کے ساتھ عالم بالا کی طرف سیر کرائی گئی۔ لامتناہی سفر لمحوں میں طے ہوا اور آپﷺ سدرۃ المنتہی سے بھی آگے تشریف لے گئے۔ باری تعالی سے تخلیہ میں ملاقات کی، وہاں جو وحی کی گئی اس کو پردۂ خفا میں رکھا گیا۔ یہ حق تعالی سے مقام راز و نیاز تھا۔ آپﷺ نے سات آسمانوں کی سیر کی، جنت دیکھی، دوزخ دیکھی، جنت کی نعمتوں کا اور دوزخ کی عقوبتوں کا مشاہدہ فرمایا۔ بلند سے بلند تر مقام پر آپﷺ کو پہنچایا گیا، تاکہ آپﷺ کی رفعت شان اور عظمت مقام ایک پیکر حقیقت بن جائے۔ آپﷺ کو عطا ہونے والی نعمتوں میں تقسیم انعامات کی نعمت بھی شامل ہے کہ آپ کو عطیات ربانی کا تقسیم کرنے والا بنایا گیا۔ ان نعمتوں میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ آپﷺ کو عبد اور رب کے درمیان واسطہ اور وسیلہ بنایا گیا۔
اُدھر اللہ سے واصل ، اِدھر مخلوق میں شامل
خواص اس برزخ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا
ان نعمتوں میں مکارم اخلاق کی تکمیل کی نعمت بھی شامل ہے۔ تمام انبیاء کرام ایک ایک وصف میں نمایاں تھے اور آپﷺ ہر وصف میں نمایاں ہیں:
حسنِ یوسف ، دم ِعیسیٰ ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے بشریت کا ارتقا مکمل ہو گیا، انسانیت درجۂ کمال کو پہنچ گئی، نبوت پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی۔ انبیائے سابقین میں ہر ایک نے آپﷺ کے آنے کی بشارت دی، ہر نبی نے آپ کے اوصاف بتاتے ہوئے آپﷺ کی نبوت کا اعلان کیا، لیکن آپﷺ نے اعلان کیا کہ ’’قصر نبوت کی آخری اینٹ میں ہوں، اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نہ ظلی نہ بروزی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی جانے والی ان تمام نعمتوں کے بعد بھی اگر ہم کو آپﷺ کی رفعت شان اور عظمت مقام کا کماحقہ ادراک ہو جاتا تو ہم خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب کو ملحوظ رکھتے، لیکن چوں کہ ہم کماحقہ اس کے ادراک سے قاصر ہیں، اس لئے ہمیں آپ کے اور آپﷺ کی بارگاہ کے آداب بالتفصیل سمجھائے گئے۔ فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اللہ سے ڈرو، اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ ’’مسلمانو! اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی سے اونچی آواز سے بات کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ (شان رسالت میں بے ادبی کی وجہ سے) تمہارے اعمال ہی غارت ہو جائیں اور تمھیں پتہ بھی نہ چلے۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں، وہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کے لئے جانچ لیا ہے (یعنی مختلف آزمائشوں سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ ان کے دلوں میں تقویٰ موجود ہے) ان لوگوں کے لئے مغفرت ہے اور اجر عظیم‘‘۔ ’’اے رسول! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں اکثر ناسمجھ اورنادان ہیں‘‘۔ (القرآن)
سورہ نور میں ارشاد فرمایا: ’’مسلمانو! اپنے درمیان رسولﷺ کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانا نہ سمجھ لو‘‘۔ سورہ احزاب میں ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو نبیﷺ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو، نہ کھانا تیار ہونے کے انتظار میں لگے رہو (یعنی بن بلایا مہمان نہ بنو) ہاں اگر بلایا جائے تو آؤ، لیکن کھانا کھاچکو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرتے نہ بیٹھ جایا کرو۔ ان باتوں سے رسولﷺ کو تکلیف ہوتی ہے…، لیکن اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا (اس لئے تمھیں بتا رہا ہے) نبی کی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لئے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ رسولﷺ کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی ازواج سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔ (۳۳؍۵۳)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کے سلسلے میں تفصیلی احکام دیئے گئے، محض اس لئے کہ کہیں نادانی سے ہم بے ادبی کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں اور ہمارے اعمال حسنہ غارت ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آداب نبوت کی نزاکتوں کا احساس کرنے والوں کو آپﷺ کی بارگاہ کے متعلق کہنا پڑا:
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ (روضہ مبارک) آسمان کے نیچے عرش سے نازک تر مقام ہے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں حضرت جنید اور حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہما جیسے بزرگوں کی بھی سانسیں اکھڑ گئی ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں وہی طہٰ