اولاد کی اچھی تربیت کے بدلے خواتین کو ہر قدم پر اجر و ثواب

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر بیٹی گھر میں پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالی نے گویا رحمت کا دروازہ کھول دیا۔ اگر دو بیٹیاں ہو گئیں تو باپ کے لئے یہ رحمت بن گئیں، کیونکہ حدیث شریف کے مطابق ان کا باپ جنت میں اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا قریب ہوگا، جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں۔

ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جب کوئی عورت کنواری انتقال کرجاتی ہے تو اسے قیامت کے دن شہداء کی قطار میں کھڑا کیا جائے گا، اس لئے کہ یہ کنواری تھی، ماں باپ کے گھر میں رہی، اپنی عزت و عفت کی حفاظت کی، ابھی اس نے خاوند کا گھر نہیں دیکھا، وہ عیش و آرام نہیں دیکھا، جو خاوند کے ساتھ رہ کر نصیب ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ محروم رہی، اس وجہ سے اللہ تعالی نے اس پر مہربانی فرمائی اور اس کو شہید کا درجہ عطا فرمایا۔ دنیا میں تو اسے شہید نہیں کہا جائے گا، مگر قیامت کے دن اللہ تعالی شہیدوں کی قطار میں اس کو کھڑا کردے گا۔
اسی طرح اگر کسی بچی کی شادی ہو گئی اور اب وہ اپنے خاوند کی فرماں برداری کرتی ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالی کی عبادت بھی کرتی ہے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ کنواری عورت ایک نماز پڑھے تو اسے ایک نواز کا ثواب ملے گا، جب کہ شادی شدہ عورت کو اکیس نمازوں کا ثواب عطا کیا جائے گا، اس لئے کہ اب اس کے لئے دو کام ضروری ہو گئے ہیں، ایک خاوند کی خدمت اور دوسرے اللہ تعالی کی عبادت۔ یعنی کوئی عورت خاوند کی خدمت کرتے ہوئے اللہ تعالی کی عبادت کرتی ہے تو اللہ تعالی اس کے اجر و ثواب میں اضافہ فرما دیتا ہے، یعنی پڑھے گی ایک نماز اور ثواب حاصل ہوگا اکیس نمازوں کا۔ یہ ہے اللہ تعالی کی مہربانی اور نرمی خواتین کے ساتھ۔

ازدواجی زندگی کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’تم (مردوں) کو ان عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارنی ہے‘‘۔ غور فرمائیے کہ کسی کی سفارش اس کی بہن کرتی ہے، کسی کی سفارش اس کی ماں کرتی ہے، کسی کی سفارش اس کی خالہ کرتی ہے، کسی کی سفارش اس کی پھوپھی کرتی ہے، عزیز و اقارب کرتے ہیں، لیکن عورتوں کی سفارش اللہ رب العزت قرآن پاک میں فرما رہا ہے کہ ’’اے مردو! تمھیں عورتوں کے ساتھ اچھے اخلاق اور اچھے انداز کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے‘‘۔

اب اگر یہی عورت اپنے خاوند کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی بسر کر رہی ہے اور پھر وہ حاملہ ہو گئی تو حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ ’’جس لمحہ میں اس کو حمل ٹھہرا، اس لمحہ میں اللہ تعالی اس عورت کے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے‘‘ اس لئے کہ کچھ عرصہ یہ بالکل بیماری کی حالت میں گزارے گی۔ واضح رہے کہ حمل کے نو مہینے کا عرصہ عورت کے لئے بیماری کا زمانہ ہوا کرتا ہے، لہذا اللہ تعالی نے اس پر یہ مہربانی فرمادی کہ جیسے ہی اس کے سرپر یہ بوجھ پڑا، اسی لمحہ اللہ تعالی نے اس کی زندگی کے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیا۔ علاوہ ازیں حدیث شریف کے مطابق دوران حمل عورت کی زبان سے جو کراہنے کی آواز ’’ہوں، ہاں‘‘ نکلتی ہے، اللہ تعالی فرشتوں کو حکم فرماتا ہے کہ اس (ہوں، ہاں) کے بدلے اس عورت کے نامہ اعمال میں ’’سبحان اللہ‘‘ اور ’’الحمد للہ‘‘ کہنے کا اجر و ثواب لکھا جائے۔

حدیث شریف کے مطابق جب عورت کو بچے کی پیدائش پر درد ہوتا ہے، تو ہر درد کے عوض میں اللہ تعالی اس کو ایک عربی نسل کا غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرماتا ہے، جب کہ دوسری حدیث شریف میں ہے کہ جس نے کسی ایک غلام کو آزاد کیا، اللہ تعالی اس کو جہنم سے نجات عطا فرمادیتا ہے۔ پھر اگر بچہ کی پیدائش کے دوران حاملہ عورت فوت ہو گئی تو حدیث شریف کے مطابق ’’یہ عورت شہید ہے‘‘ اور قیامت کے دن اسے شہداء کی قطار میں کھڑا کیا جائے گا۔ اور اگر بچہ صحیح پیدا ہو گیا، یعنی زچہ بچہ دونوں خیریت سے ہیں تو اب حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اللہ تعالی ایک فرشتہ کو حکم دیتا ہے، جو اس عورت کو آکر کہتا ہے کہ ’’اے ماں! اب تو فارغ ہوچکی ہے، تجھے گناہوں سے پاک کردیا گیا، جس طرح تو اس دن پاک تھی جب تو اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی‘‘۔ یعنی اللہ تعالی عورت کو اس کی تکلیف کے عوض اس کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

اب اگر یہی ماں اپنے بچے کی اچھی تربیت کرتی ہے، اس کو اللہ اللہ کہنا سکھاتی ہے تو حدیث شریف کے مطابق ’’جو بچہ اپنی زندگی میں سب سے پہلے اپنی زبان سے اللہ کا لفظ ادا کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ماں باپ کے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے‘‘۔ پھر جب یہی بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور ماں باپ انھیں قرآن پاک پڑھاتے ہیں تو وہ جس لمحہ ناظرہ قرآن پاک مکمل کرے گا، اللہ تعالی اس کے ماں باپ کے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ اسی طرح اگر وہ اولاد حافظ قرآن بنتی ہے تو حدیث پاک کے مطابق اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو نور کا ایسا تاج پہنائے گا، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے زیادہ ہوگی۔ قیامت کے دن لوگ پوچھیں گے کہ ’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ تو جواب دیا جائے گا کہ ’’یہ وہ خوش نصیب والدین ہیں، جنھوں نے اپنی اولاد کو قرآن پاک حفظ کرایا تھا، آج اللہ تعالی نے انھیں نور کا تاج پہنایا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالی بچوں کی اچھی تربیت پر ہر ہر قدم پر والدین کو اجر و ثواب عطا فرماتا ہے۔

اس کے علاوہ جب یہی عورت اپنے گھر کے کام کاج کرتی ہے تو کام کاج پر بھی اجر و ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ مثلاً عورتوں کو ان کے گھریلو کام کے عوض بھی ثواب عطا کیا جاتا ہے، خواہ وہ گھر کی صفائی کریں یا کھانا پکائیں۔ حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق اگر کوئی اپنے خاوند کے گھر میں بے ترتیب پڑی ہوئی چیز کو اٹھاکر ترتیب سے رکھ دیتی ہے تو اللہ تعالی اس کو نیک نیکی عطا فرماتا ہے، ایک گناہ معاف فرماتا ہے اور جنت میں ایک درجہ بلند فرماتا ہے‘‘۔ (اقتباس)