اولاد سے محروم خواتین کیلئے خوشخبری

سوپر اسپیشالیٹی اِن فرٹیلٹی سنٹر سکندرآباد و بنجارہ ہلز کی ڈاکٹر سارہ عثمان سے انٹرویو

از : محمد نصراﷲ خان
21 ویں صدی سائنس و ٹکنالوجی بالخصوص میڈیکل ٹکنالوجی کیلئے ترقی یافتہ اور حوصلہ افزاء ہے ۔ کئی امراض جو اس دور میں لاعلاج سمجھتے جاتے رہے آج میڈیکل سائنس کی غیرمعمولی اور تیز رفتار ترقی کے باعث قابل علاج ہیں۔ خواتین کے پیچیدہ اور پوشیدہ امراض کے باعث کئی حسین و خوبصورت عورتیں اولاد سے محروم ہونے کے باعث مایوسی اور ڈیپریشن کا شکار ہیں ۔ مختلف طرح کے علاج اور گھریلو آزمودہ نسخے و طریقے اختیار کرنے کے باوجود اُن کی تاریک اور بے لطف زندگی میں کوئی روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ اکثر صورتوں میں تو ان عورتوں کے شوہر یا تو بے تعلقی اختیار کرلیتے یا پھر سماجی دباؤ بالخصوص ماں باپ کے بے پناہ اصرار کی وجہہ سے کامیاب ازدواجی زندگی سے محروم ہوجاتے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ کی یہ حکمت ہے کہ وہ اپنی شفاء عطا کرنے کی صفت کے ذریعہ ہر مرض کا علاج بھی مہیا کرتا ہے چنانچہ آج کے طرز زندگی اور دیگر کئی جسمانی پیچیدگیوں کے باعث خواتین میں بانجھ پن کا اضافہ ہوتا جارہا ہے ، دراصل عورت کی نسوانی اور تولیدی اعضاء میں خامی یا نقص کے باعث وہ حاملہ نہیں ہوپاتیں ۔ بعض امراض جیسے تھائیرائیڈ ، ذیابیطس ، موٹاپا ، خون کی خرابی اور دیگر وجوہات کی بناء پر بھی حمل کی صلاحیت سے وہ محروم ہوجاتی ہیں ۔ یہ صورتحال نہ صرف شہروں بلکہ اضلاع اور دیہاتوں میں بھی موجود ہے اور وسائل رکھنے کے باوجود لوگوں میں شعور نہیں ہے کہ وہ اپنی اس کمزوری کا سدباب کریں اور معلومات حاصل کریں ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کئی عورتیں شرم و حیاء کے باعث ڈاکٹرس سے رجوع نہیں ہوتیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ حمل نہ ہونے کی کیفیت کا ذکر بھی شرم و حیاء کے خلاف ہے ۔ ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ حیدرآباد کی ماہر امراض و نسواں ڈاکٹر سارہ عثمان سے ملاقات کی جائے اور اس موضوع پر گفتگو کے نتائج خواتین کے علم میں لائے جائیں جس سے نہ صرف اُن کی رہنمائی ہو بلکہ لاولد خواتین کی خزاں رسیدہ زندگی میں بہار اُمید پیدا ہوں چنانچہ ڈاکٹر سارہ عثمان سے انٹرویو کیلئے ربط پیدا کیا گیا ۔ ڈاکٹر سارہ عثمان سکندرآباد ویمنس ہاسپٹل کے سوپر اسپیشلٹی فرٹیلٹی سنٹر کی سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ انھوں نے حیدرآباد کے دکن میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور اُس کے بعد 2000 ء سے 2008 ء تک انگلینڈ میں DRCOG, DFFP کی ڈگریاں حاصل کیں اور جرمنی سے DRM کی تکمیل کی ۔ انگلینڈ میں اپنے قیام کے دوران انھیں کوئینس میڈیکل سنٹر اور دیگر ہاسپٹلس میں کئی ماہر و تجربہ کار ڈاکٹروں کے ساتھ امراض نسواں ، Infertility اور دیگر متعلقہ امراض سے متاثرہ خواتین کا علاج کرنے کا تجربہ حاصل ہوا ۔ تقریباً 8 سال انگلینڈ اور جرمنی میں قیام کے بعد وہ اپنے وطن واپس ہوئیں ۔وہ اور اُن کے شوہر جناب محمد حمیدالدین ایم بی اے نے جذبہ ہمدردی اور شادی شدہ جوڑوں میں پیدا غیرمعمولی تشویش اور پریشانی کا ازالہ کرنے کیلئے ہاسپٹل کے قیام کا منصوبہ بنایاجو صرف اور صرف خواتین کے علاج کیلئے مخصوص ہے چنانچہ سکندرآباد کے علاوہ انھوں نے بنجارہ ہلز روڈ نمبر 11 پر بھی ہاسپٹل کی شاخ قائم کی ہے جہاں انھوں نے بانجھ پن کو دور کرنے کیلئے کئی عصری آلات اور مشینوں کی مدد سے علاج و معالجہ کے جدید طریقوں سے ہاسپٹل کو آراستہ کیا چنانچہ آج اس ہاسپٹل میں کئی خواتین دیکھی گئیں جو علاج سے پہلے لاولد تھیں اور اب اُن کی گود مسکراتی اور مچلتی اولاد سے معمور دکھائی دی ۔ ڈاکٹر سارہ عثمان نے بتایا کہ بہت ساری عورتیں علاج کے سلسلہ میں یا تو لاعلم رہتی ہیں یا پھر ایسے ڈاکٹروں اور دواخانوں سے رجوع ہوتی ہیں جو تجارتی انداز میں نہ صرف علاج کرتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے ٹسٹوں کے ذریعہ مریض کے حوصلے کو پسپا و نااُمید کردیتے ہیں ۔ ڈاکٹر سارہ کے ہاسپٹل کی انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں انسانی ہمدردی اور مریضوں کی مدد کرنے کے مقصد کے تحت علاج کیا جاتا ہے چنانچہ جیسے ہی کوئی لاولد خاتون ان سے رجوع ہوتی ہیں تو وہ مختلف جدید طریقوں کے ذریعہ تشخیص کرتی ہیں ۔ شوہر اور بیوی کے لئے علحدہ ٹسٹ کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔ اسکیننگ ، الٹراساؤنڈ اور ایم آر آئی کی مدد سے بانجھ پن اور بچہ دانی کی ساخت و کارکردگی کا مکمل جائزہ لیا جاتا ہے ۔ ہاسپٹل کو تمام عصری آلات سے آراستہ کیا گیا ہے جہاں ورک اسٹیشن ہے ۔ IVF لیاب ، ICS لیاب اور IMSI لیاب کی مدد سے مختلف نسوانی مراحل اور مسائل کا پتہ چلایا جاتا ہے ۔ ہاسپٹل میں نہایت عصری مشینوں سے مزین تھیٹر بھی موجود ہے ۔ ڈاکٹر سارہ عثمان نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ اُن کے انفرالیٹی سنٹر میں نہ صرف مقامی ، تلنگانہ اور دیگر ریاستوں کی خواتین بلکہ طبی مسائل سے دوچار خواتین انٹرنیٹ کے ذریعہ رجوع ہوتی ہیں اور اب تو ان خواتین کی تعداد 60 تا 70 فیصد پہنچ چکی ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ کئی مایوس اور غم زدہ شادی شدہ جوڑے اُن کے علاج کے بعد اولاد کی نعمت سے مالا مال ہوئے اور اُن کی زندگیوں میں خوشیاں اور بہاریں سمٹ آئیں۔ ڈاکٹر سارہ نے کہا کہ کئی لاولد خواتین کا وہ Clarvily and Treatment کررہی ہیں ICSI کے 4000 اور 6000 IMSI ٹائپس ہوئے ہیں ۔ شوہر اور بیوی کا DNA بھی کیا جاتا ہے ، بچہ دانی میں حمل کی صلاحیت پیدا کرنے کیلئے عصری طبی طریقے کا فی معاون ثابت ہورہے ہیں ، یہی نہیں بلکہ ان خواتین کی کونسلنگ کا خاطرخواہ انتظام بھی ہے اور اُنھیں کس طرح کی زندگی گذارنی چاہئے ، غذاؤں کا استعمال ، لباس ، رہن سہن کا طریقہ کیسا ہو ، شوہر کے ساتھ کس طرح کا میل جول ہو اور اسی طرح کی مفید باتوں پر مشتمل کونسلنگ سے خواتین کو نئی روشنی ملتی ہے ۔ ڈاکٹر سارہ عثمان سے ملاقات کے بعد علامہ اقبال کا یہ مصرعہ ذہن میں گونجتا رہا کہ ؎
’’پییوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ‘‘