انکت سکسینہ کے قتل کے بعد کے بعد مقامی لوگوں کی جانب سے امن کی پہل

نئی دہلی۔ مبینہ طور پر انکت سکسینہ کا قتل پانچ روز قبل اس کی گرلز فرینڈ کے گھر والوں نے کیا تھا‘ امن وامان قائم کرنے کے لئے راگھوبیر نگر میں حفاظتی دستوں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔ مگر شرپسند عناصر علاقے میں بدامنی پھیلانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ اقلیتی طبقے کے درجنوں گھر اس علاقے میں ہیں جن کی روزمرہ کی سرگرمیوں میں رخنہ پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔مگر اب علاقے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ذمہ داری مقامی لوگوں نے اٹھالی ہے۔

درایں اثناء 23سالہ متوفی کے گھر والوں نے تمام لوگوں سے درخواست کی ہے کہ اس اندوہناک واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیں‘ اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سارے لوگوں کو عدم تحفظ کا خوف ہے کیونکہ عاشق جوڑے کا دو الگ الگ مذاہب سے تعلق ہے۔ایک پڑوسی نے بتایا کہ قتل کے دوسرے دن مقامی خواتین کے ایک گروپ نے سکسینہ کے گھر والوں سے ملاقات کی ۔

بعدازاں وہ بی بلاک پارک کے پاس جمع ہوئے اور اقلیتی طبقے کے لوگوں کو علاقے سے باہر نکالنے کا مطالبہ کیا۔بچوں کی حفاظت کے لئے مضطرب ایک دوکاندار جو علاقے میں پچھلے 16سالوں سے رہتا ہے نے کہاکہ میں بچوں کوٹیوشن جانے او ررات میں گھر کے باہر کھیلنے سے روک دیا ہے۔

اس نے کہاکہ ’’ سکسینہ کی موت کے بعد سے ماحول میں بڑی تبدیلی ائی ہے۔ تین لوگ جنھوں نے دعوی کیاتھا کہ وہ تلک نگر سے ائے ہیں ‘ لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر مقامی لوگوں کی جانب سے سکیورٹی عہدیداروں کو اس کی خبر دئے جانے کے بعد وہ وہا ں سے بھاگ گئے‘‘۔

اسی کے طرز پر دوسرے مقامی شخص نے کہاکہ اس نے اپنی بہن کو گاؤں بھیج دیا ہے۔ تاہم وہ پر امید ہے’’ راگھو بیر نگران سے میں ایک علاقہ ہے جہاں پر راتوں رات 1984کے مخالف سکھ فسادات ہوئے تھے ۔

ہم جانتے ہیں کہ تشدد سے کوئی حل نہیں نکلتا‘‘۔مکینوں کے اسوسیشن کے صدر سبھاش سنگھ راتھوڑ نے کہاکہ انہوں نے مقامی کونسلر اور پولیس افسروں سے بات کی ہے اور وہ بذات خود رات میں پٹرولنگ کررہے ہیں۔

راتھوڑ نے کہاکہ ’’ ہر سڑ ک کے کنارے گھروں کے باہر ہم لوگ بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ ہر کسی کو محفوظ محسوس کراسکیں۔جو لوگ اقلیتی طبقے کے لوگو ں کو علاقے سے نکالنے کی بات کررہے تھے ہم نے انہیں انتباہ دیا کہ اگر کوئی تشدد ہوتا ہے ہم ان لوگوں کو پولیس کے حوالے کردیں گے‘‘۔

منگل کے روز علاقے میں نیم فوجی دستوں کا مارچ کیاگیا ہے اور راگھوویر نگر میں حالات آہستہ مگر معمول پر آرہے ہیں۔