انٹر میڈیٹ نتائج ‘ غلطیوں کا ذمہ دار کون

ہمت التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
انٹر میڈیٹ نتائج ‘ غلطیوں کا ذمہ دار کون
ہماری ریاست تلنگانہ میں انٹرمیڈیٹ کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ۔ ہمیشہ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی آئندہ سال کیلئے طلبا کی تعلیمی سرگرمیاں اور منصوبہ بندی شروع ہوجاتی ہے لیکن اس بار ایسا نہیںہوا بلکہ عہدیداروں کی غفلت ‘ اقربا پروری اور عملا ایک طرح کے اسکام نے طلبا کی زندگیوں سے کھلواڑ کا عمل شروع کردیا ۔ نتائج میں غلطیوں اور لا پرواہی کی وجہ سے کئی اہل اور کامیاب طلبا کو ناکام قرار دیدیا گیا جس کے نتیجہ میں اب تک تقریبا دیڑھ درجن طلبا نے خودکشیاں کرتے ہوئے اپنی زندگیاں ختم کرلی ہیں۔ ان گھروں کے چراغ گل ہوگئے لیکن حکومت اور عہدیدار اپنی ہی دنیا میںمگن ہیں۔ مسلسل احتجاج اور برہمی اور اپوزیشن کی تنقیدوں کے بعد چیف منسٹر ہوش میں آئے اور انہوں نے تین لاکھ سے زائد طلبا کے پرچوں کی دوبارہ جانچ اور مفت دوبارہ گنتی کے احکام دئے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جار ہا ہے کہ طلبا کے مفاد میں چیف منسٹر نے ایک بڑا کارنامہ انجام دیدیا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیںہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت اور چیف منسٹر جو عہدیدار اس اسکام اور سنگین غلطیوں کیلئے اور طلبا کی خود کشیوں کیلئے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کرتے اور انہیںمعطل کرکے سارے مسئلہ کی تحقیقات کا حکم دیا جاتا ۔ تحقیقات میں جو عہدیدار ذمہ دار اور خاطی قرار پاتے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے جس سے ایسی غفلت اور اسکام میںملوث عہدیداروں کے حوصلے پست نہیں ہوپارہے ہیں اور ان کا رویہ اب بھی ہٹ دھرمی والا ہی دکھائی دے رہا ہے ۔ جو طلبا و طالبات اپنے تعلیمی سال کو بچانے اور اپنی محنت کے مطابق نتائج کیلئے احتجاج کر رہے ہیں ان سے انصاف کرنے اور انہیں دلاسہ دینے کی بجائے انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے اور ان پر لاٹھی چارچ بھی کیا جا رہا ہے ۔ طلبا برادری کو مطمئن کرنے اور ان کا تعلیمی سال عہدیداروں کی لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے ضائع ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے عہدیداروں کو بچانے کی کوشش زیادہ ہو رہی ہے ۔ حکومت کا یہ رویہ اور اس کے اقدامات طلبا برادری کے مفادات کے مغائر ہیں۔
ریاست میں حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی سرکاری محکمہ جات انتہائی لاپرواہی اور غفلت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ حکومت کو اور برسر اقتدار پارٹی کو صرف اپنی انتخابی کامیابیوں کی فکر لاحق ہوگئی ہے یا پھر اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو انحراف کیلئے اکسانے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ سرکاری محکموں کا کام کاج ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے اور جہاں کہیں وقت مقررہ میں کوئی کام کرنا لازمی ہو وہاں کی صورتحال انٹرمیڈیٹ بورڈ کی طرح ہوگئی ہے ۔ جو الزامات اس سلسلہ میں سامنے آ رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ درست نہ بھی ہوں لیکن حکومت کو محض خانہ پری کے اقدامات کرنے اور غلطیوں کو چھپانے کی بجائے سارے معاملہ کی جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانی چاہئے تھیں۔ جو عہدیدار تحقیقات میں خاطی اور لاپرواہی اور غفلت کے مرتکب پائے جانے ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ۔ انہیں خدمات سے برطرف کیا جاتا تو پھر اس محکمہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں حکومت کی دلچسپی کا اظہار بھی ہوتا لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور محض پرچوں کی دوبارہ تنقیح اور نشانات کی دوبارہ گنتی کے احکام جاری کرتے ہوئے حکومت نے خود کو بری الذمہ کرلینے کی کوشش کی ہے ۔ محض چند معمولی اقدامات کے ذریعہ حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ وہ ریاست کے عوام کے سامنے جوابدہ ہے اور خاص طور پر طلبا برادری کے مفادات کا تحفظ کرنا اور ان سے انصاف کرنا حکومت کا فریضہ ہے ۔
جو طلبا و طالبات سخت محنت اور جدوجہد کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کے اہل تھے اور انہیں ناکام کردیا گیا ان میں سے چند دنے خود کشی کرلی ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائیگی ؟۔ کیا اتنی جانوں کا اتلاف محض دوبارہ گنتی یا دوبارہ تنقیح کے ذریعہ پورا کیا جاسکتا ہے ؟ ۔ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اب بھی کم از کم خواب غفلت سے باہر آئے ۔ نہ صرف انٹرمیڈیٹ بورڈ بلکہ دیگر سارے محکمہ جات کی کارکردگی کا انتظامی اعتبار سے جائزہ لے ۔ ان میں پائی جانے والی خامیوںکو دور کیا جائے ۔ عہدیداروں کو جوابدہ بنایا جائے ۔ عوام کو سہولیات فراہم کرنے پر توجہ دی جائے اور دکھاوے کیلئے ضابطہ کی کارروائی کی بجائے ٹھوس اور عملی اقدامات کئے جائیں۔ یہی وقت کا تقاضہ ہے ۔