انتخابی مہم میں شدت

تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے لیے جاری انتخابی مہم میں شدت پیدا ہونے کے ساتھ سیاسی پارٹی قائدین کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ قومی سطح کی قیادت کرنے والے قائدین نے حریفوں کے خلاف تلخ اور تند لہجہ بھی اختیار کیا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بی جے پی امیدوار کے لیے انتخابی مہم چلاتے ہوئے ریاست تلنگانہ کے انتخابی ماحول کو گرما دیا ۔ ان کی تقاریر کا نشانہ قومی و ریاستی پارٹیاں رہیں خاص کر کانگریس اور حکمراں علاقائی پارٹی ٹی آر ایس پر الزام عائد کیا کہ یہ دونوں خاندانی حکمرانی کو ترجیح دے چکی ہیں ۔ ووٹ بینک کی سیاست پر گامزن ہوجانے سے ملک کی ترقی کھوکھلی ہوجاتی ہے جس طرح دیمک ایک اچھی خاصی لکڑی کو کھوکھلا کردیتی ہے ۔ کے چندر شیکھر راؤ کے ماضی کی جانب سے عوام کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ تلنگانہ کے چیف منسٹر جس وقت مرکز میں یو پی اے حکومت کے مرکزی وزیر تھے تو وہ سونیا گاندھی کے اشاروں پر کام کرتے تھے ۔ اب اس کے بعد تلنگانہ کا اقتدار حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اس ریاست کو تباہ کردیا ۔ کے سی آر کی ساری تربیت و تعلیم کانگریس میں ہوئی ہے ۔ اس لیے کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان ’’دوستانہ میچ ‘‘ چل رہا ہے ۔

بظاہر یہ پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کررہی ہیں لیکن وہ اندر سے دوست ہیں ۔ وزیراعظم کے یہ ریمارک تلنگانہ عوام کے لیے ناقابل قبول ثابت ہوئے ہیں کیوں کہ یہ بات عام ہوچکی ہے کہ کے سی آر نے بی جے پی سے خفیہ معاملت کرلی ہے اور ٹی آر ایس کو مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے مرکزی حکومت کے ساتھ اندرونی معاملت بھی کرلی ہے تاکہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس مضبوط ہوتی ہے تو مرکز میں مودی حکومت کی ہر موقع پر تائید کرے گی ۔ جیسا کہ اس نے ماضی میں کیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں اہم بلوں کی منظوری ہو یا صدر جمہوریہ کے انتخاب کے لیے رائے دہی یا اور کسی موضوع پر ٹی آر ایس نے مودی حکومت کا بھر پور درپردہ اور غیر محسوس طریقہ سے تعاون کیا ہے ۔ وزیراعظم مودی کا دورہ تلنگانہ اور جلسہ عام سے خطاب ایک سیاسی کارکن سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا کیوں کہ انہوں نے اپنی حکومت کی پالیسیوں کو بیان کرنے سے زیادہ تلنگانہ کی حکمراں پارٹی ٹی آر ایس اور قومی جماعت کانگریس پر نکتہ چینی کرنے پر توجہ دی ۔ کانگریس اور ٹی آر ایس کو ایک سکے کے دو رخ قرار دینے والے مودی کی پارٹی کے تعلق سے بھی یہی کہا جارہا ہے کہ ٹی آر ایس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ عوام بھی اس حقیقت سے واقف ہورہے ہیں ۔

سچائی کو پوشیدہ رکھا نہیں جاسکتا ۔ ویسے انتخابات کا ماحول ہی منفرد ہوتا ہے ۔ اس موقع پر جو دشمن ہوتے ہیں کل دوست بن جاتے ہیں اور آج جو دوست ہیں کل دشمن بن جاتے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کی یہی کیفیت اور موقع پرستی نے عوامی مسائل کو دن بہ دن خطرناک حد تک پہونچا دیا ہے ۔ کے سی آر نے جوابی حملوں کے ذریعہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ بی جے پی سے ان کی کوئی خفیہ معاملت نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو تحفظات دینے کی راہ میں بی جے پی کے حائل ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کے سی آر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو تحفظات فراہم کر کے ہی دم لیں گے ۔ تلنگانہ کی سیاست کے تضادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی اور ٹی آر ایس کو شکست کا احساس ہونے لگا ہے ۔ اس لیے ان کے انتخابی تقاریر کے لہجہ میں تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں ، لہذا رائے دہندوں کو ان قائدین کی لچھے دار تقاریر پر دھیان نہیں دینا چاہئے ۔ بلکہ حکمرانوں کے ترقیاتی کاموں اور اپنے مسائل کا جائزہ لے کر ہی ووٹ دینے کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔ یہ انتخابات سیاسی پارٹیوں کا اچھا خاصہ اسٹاک ایکسچینج بن گئے ہیں ۔ جہاں ہر لیڈر سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس پر دو گنا چار گنا کمانا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا باشعور اور سمجھ دار رائے دہندہ انہیں اچھا متصور نہیں کرتا ۔۔