انتخابی شیڈول کا اعلان

سفینے اِن کی کوشش سے پہونچ جاتے ہیں ساحل تک
مگر موجوں کو اپنی برہمی سے کچھ نہیں ملتا
انتخابی شیڈول کا اعلان
توقعات کے عین مطابق ملک میں انتخابی بگل بج گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے لوک سبھا کے انتخابات کا اعلان کردیا ہے جو 11 اپریل سے شروع ہوکر سات مراحل میں تکمیل کو پہونچیں گے ۔ کمیشن نے ساتھ ہی چار ریاستوں آندھرا پردیش ‘ اروناچل پردیش ‘ اوڈیشہ اور سکم کے اسمبلی انتخابات کا بھی اعلان کردیا ہے ۔ گذشتہ چند دنوں سے جس طرح کی سیاسی سرگرمیاں چل رہی تھیں اس اعتبار سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ کمیشن کی جانب سے کسی بھی وقت انتخابات کی تواریخ کا اعلان کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں الیکشن کمیشن نے مختلف ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے وہاں کی تیاریوں کا اور انتظامات کا جائزہ لیا تھا اس سے بھی پتہ چل رہا تھا کہ کمیشن تواریخ کے اعلان کی تیاریاں کر رہا ہے تو ساتھ ہی جس طرح سے سرکاری اور سیاسی سرگرمیوںمیں تیزی آگئی تھی وہ بھی اشارہ دے رہی تھیں کہ انتخابات کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بھی وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے مسلسل ترقیاتی پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا ۔ کئی اسکیمات کا اعلان کیا جا رہا تھا اور ساتھ ہی سابقہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا تھا ۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی تھیں۔ مختلف ریاستوںمیںاتحاد کرنے کیلئے کوششیں شروع ہوگئی تھیں۔ کئی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کا عمل بھی تیز ہوگیا تھا ۔ مختلف اقدامات اور اعلانات پر حکومت کو نشانہ بنانے کی مہم تیز ہوگئی تھی اور ساری سرگرمیوں کا مقصد انتخابات کی تیاری تھا اور اب تواریخ کا باضابطہ اعلان کردیا گیا ہے ۔ 23 مئی وہ دن ہوگا جب ہندوستان میں نئی حکومت قائم ہوگی اور نئی عوامی تائید کے ساتھ اقتدار سنبھالے گی ۔ اب الیکشن کمیشن کی جانب سے جو اقدامات کئے جانے ہیں وہ توجہ کے حامل ہونگے اور ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کی مہم پر بھی ملک کے رائے دہندوںکو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ یقینی طور پر سیاسی جماعتیں رائے دہندوں کو رجھانے کئی وعدے کرینگی اور سبز باغ دکھائیں گی تاہم انہیں پوری چوکسی کے ساتھ ان کے وعدوں میں سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا ۔
الیکشن کمیشن نے اپنے اعلان میں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ تمام ووٹنگ مشینوں میں وی وی پیاٹ کو جوڑا جا رہا ہے ۔ یہ ایک طرح سے اپوزیشن جماعتوں کے مطالبہ کی تکمیل ہے ۔ کچھ جماعتیں حالانکہ ووٹنگ مشینوں کا طریقہ کار ختم کرنے پر زور دے رہی تھیں لیکن بیشتر جماعتیں وی وی پیاٹ کی وکالت بھی کر رہی تھیںجسے کمیشن نے عملا منظور کرلیا ہے ۔ یہ ایک طرح سے اچھا اقدام کہا جاسکتا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ راست ووٹنگ مشینوں کے تعلق سے جو اندیشے تھے وہ اس قدر تقویت پا گئے تھے کہ الیکشن کمیشن کو عوام کا اعتماد حاصل کرنے ان تمام مشینوں کو وی وی وپیاٹس سے جوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔ کمیشن کو اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ انتخابی مہم کے دوران قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے ۔ خاص طور پر برسر اقتدار جماعتوں کے قائدین اور ذمہ داروں کو اپنے عہدے کے بیجا استعمال اور سرکاری مشنری پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ کمیشن نے اپنے طور پر منصوبے بنائے ہیں ان کو پوری طرح عمل آوری کرنے میں بھی اسے کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ہونے والا سب سے بڑا جمہوری عمل ہے ۔ عوام کو حقیقی معنوں میں اپنی پسند اور مرضی کی حکومت کے انتخاب کا پورا موقع دیا جانا چاہئے اور یہی جمہوریت کے اصل معنی ہیں۔
الیکشن کمیشن کو انتخابی مہم کے دوران میڈیا اور خاص طور پر سوشیل میڈیا کے رول پر بھی خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ حالانکہ کمیشن نے سوشیل میڈیا کو بھی اخراجات کے دائرہ کار میں لانے کی بات کہی ہے اور یہ خوش آئند بھی ہے تاہم یہ اسی وقت موثر ثابت ہوگی جب اس کے بیجا استعمال اور حقیقی معنوں میں حساب کتاب کے دائرہ میں لانے کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔ صرف اعلان کی حد تک اسے محدود نہ رکھا جائے کیونکہ یہ اندیشے بھی پائے جاتے ہیں کہ سوشیل میڈیا کے ذریعہ ‘ جس پر بظاہر کوئی روک ٹوک نہیں ہے ‘ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ الیکشن کمیشن کو اب اپنے اختیارات کا کامل استعمال کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو بہترین انداز میں حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کمیشن کو یہ بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس پر عوام کا اعتماد متزلزل نہ ہونے پائے ۔