انتخابات اورہماری ذمہ داری

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ،دستورکی روسے ہرپانچ سال کی میعاد پوری ہونے پر سارے ملک میں انتخابات عمل میں لائے جاتے ہیں۔کس طرح اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا اورکیسے امیدواروں کے حق میںووٹ کا استعمال کرناچاہئے وقت وحالات کے پس منظرمیں یہ ایک اہم اور سلگتا ہوا سوال ہے؟ ظاہر ہے جمہوری ملک میں ہرقوم ومذہب کے افراد کو بحیثیت امیدوار میدان انتخاب میںاترنے کی اجازت ہے۔ووٹ دہندگان کا فریضہ ہے کہ وہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جمہوریت پسنداورسیکولرکردارکے حامل امیدواروں کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کریں،امیدوارمسلمان ہوں توان کودین ودیانت کا پیکرہوناچاہئے ورنہ جواپنے سچے وآفاقی دین کاپاسدارنہ ہووہ کسی اورکا وفاداروبہی خواہ ثابت ہو اس کی بہت کم امیدکی جاسکتی ہے،اس سے کہیں بھی چوک ہوسکتی ہے،اپنے شخصی وخاندانی مفادات کیلئے سودے بازی کر لے اورقوم وملت کواپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دے یہ بھی بعیدازقیاس نہیں ۔ علاوہ ازیںبشمول مسلمان سارے امیدواروں میں قیادت کی لیاقت وصلاحیت ہونی چائیے،یہ بھی کہ وہ عقل ودانش،فہم وفراست ، سیاسی بصیرت،اچھی خاصی علمی لیاقت کے مالک ہوں ،عدل وانصاف کے حامی،ظلم وجور کے مخالف ہوں،ملک کے باشندگان کے درمیان نفرت کا زہرگھولنے کے بجائے پیارومحبت اورانسانیت کا پیام عام کرنے کا مزاج رکھتے ہوں۔صبروبرداشت،ہمت وحوصلہ جیسے عالی اوصاف کے مالک ہوں،اتحادواتفاق کی فضاء بنائے رکھنے اورمذہبی وانسانی اخلاقیات کوبرتنے کی حکمت عملی سے واقف ہوں ورنہ ان جیسی صفات کے بغیروہ اپنے منصب سے انصاف نہیں کرسکتے ،اسمبلی یا پارلیمانی امیدوارکی حیثیت سے منتخب ہونے پراپنے منصب سے انصاف کرسکتے ہوں۔ قوم وملت کے اجتماعی مفادات کوہرصورت میں عزیزرکھتے ہوں،غیض وغضب کی صفت سے عاری ہوں،کچے کان کے نہ ہوں ورنہ حاشیہ بردار اپنے مفادات کی تحصیل کیلئے کسی کے خلاف ورغلاکر اس کونقصان پہنچانے کا باعث بھی بن سکتے ہیں،دنیا بھرکی جمہوریتوں اورخاص طورپرہمارے جمہوری ملک میں اس وقت ایسی خصوصیات کے حامل سیاستدانوں کا بڑی حد تک فقدان ہے جوایک کامیاب سیاسی لیڈروقائدمیں ہونے چاہئے۔زندگی کے دیگرشعبوں میں جہاں اچھے قابل، ماہرودیانتدارافرادکی تلاش کی جاتی ہے جیسے کسی مریض کیلئے ڈاکٹرکا انتخاب ہوتوبڑی جستجو،تلاش وتحقیق کے بعداس مرض کے علاج کیلئے کسی ماہرڈاکٹرسے رجوع کیا جاتاہے

اسی طرح مکان کی تعمیرمقصودہوتوماہرانجینئروآرکیٹکٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، سیاست بھی زندگی کا ایک اہم شعبہ ہے اس میں بھی اچھے وپاکیزہ کردار،دستوروقانون کی نزاکتوں پرنظررکھنے والے اورملک وملت کے بہی خواہ افرادامیدواروںکے انتخاب کی دانشمندانہ وہوش مندانہ فکر کی جائے تبھی ملک کی ترقی،قوم وملت کی بہی خواہی کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا۔ مالیات کے معاملات کو دیانت داری سے انجام دینے ،عدالتوں سے مبنی برانصاف فیصلے صادرکروانے اورمظلوموں کوجلد سے جلد انصاف دلانے،ملک وملت کے مفادات کا تحفظ پیش نظررکھتے ہوئے ملک کے خارجی وداخلی معاملات سنجیدگی کے ساتھ انجام دینے کی صلاحیت رکھنے والے ،سرحدوں کی حفاظت کے نظام کی خاص طورپر نگرانی رکھنے والے ،شہروں کی ترقی کے ساتھ قصبوں اوردیہاتوں میں رہنے والے باشندگان کے مفادات کوعزیزرکھنے والے،دل دردمنداورفکرارجمندکے مالک امیدواروں کا انتخاب ملک وملت کے وسیع تر مفادمیں ہے۔ الغرض ملک کا نظم ونسق عمدہ، بہتروکامیاب اندازمیں چلانے کیلئے سیاسی امورمیں جس گہری بصیرت اورمنصفانہ وعادلانہ نظام کے قیام میں جس دقت نظری کی ضرورت ہے اس کے حامل افرادہی کو سیاست میں حصہ لینا چاہئے اورشہریوںکوپورے شعورکے ساتھ ایسے ہی امیدواروں کومنتخب کرکے حکومت کے ایوانوں میں پہنچانا چاہئے۔ غیرشعوری وغیرسنجیدہ اندازمیں اپنے حق رائے دہی کا استعمال بقول کسے’’ابوجہل جیسے امیدواروں کومنتخب کرکے حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے نہج پرحکومت کے نظم ونسق کے قیام کا خواب دیکھناہے‘‘ ۔الیکشن میں انتخابات کے سلسلہ میں خاص طورپرمسلمانوں کو کتاب وسنت سے ضرورروشنی حاصل کرنا چاہئے ’’اللہ سبحانہ تمہیں تاکیدی حکم دیتے ہیں کہ امانتوں کوان کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں اورجب بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوعدل وانصاف سے فیصلہ کرو ‘‘(النساء:۵۸)یہ آیت پاک خاص پس منظرمیں نازل ہوئی ہے لیکن وسیع تناظرمیں جوسارے احکام اسلام کوشامل ہے ،امراء وحکام ،عوام ورعایہ دونوں اس حکم کے مخاطب ہیں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ مناصب وعہدوں پر اس کی اہلیت وصلاحیت رکھنے والوں کوفائزکیا جائے، محض سیاسی وجماعتی دبائو، خاندان وقرابت،دوستی ومحبت ،نسلی ومعاشی پستی کی بنیادپرمنظورکئے جانے والے تحفظات(کوٹہ سسٹم) کے زمرے میں شامل افراد کو ان کی اہلیت وصلاحیت کے بغیرووٹ دینا اس آیت پاک کے منشاء کی صریح خلاف ورزی ہے۔والاظہرفی الآیۃ انہا عامۃ فی جمیع الناس،فہی تتناول الولاۃ فیما الیہم من الامانات فی قسمۃ الاموال ورد الظلامات ،والعدل فی الحکومات(قرطبی:۶؍۴۲۴)حدیث پاک میں واردہے ’’جب امانتیں ضائع ہونے لگیںتوپھرقیامت کا انتظارکرو،صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ امانتوں کوضائع کرنے سے کیا مرادہے؟آپ ﷺنے فرمایا امانتیں غیر اہل افرادکے حوالے کی جائیں،امانتیں غیراہل افرادکے سپردکرناگویا امانتوں کو ضائع کرنا ہے‘‘(بخاری:۵۹)اذا ضیعت الامانۃ فانتظر الساعۃ،قال: کیف اضاعتہا یا رسول اللہ ؟ قال: اذا اسند’’ الامر‘‘الی غیر اہلہ فانتظر الساعۃ۔والمراد من’’الامر‘‘جنس الامورالتی تتعلق بالدین کالخلافۃ والامارۃ والقضاء والافتاء وغیر ذلک(فتح الباری شرح بخاری،کتاب الرقاق ،باب رفع الامانۃ)درج بالا آیت پاک میں دوسرا حکم عدل وانصاف کا ہے،عمومی طورپرسب اس حکم کی تعمیل کے پابندہیں لیکن امراء وحکام خاص طورپراس کے مخاطب ہیں،حکام جب تک عدل وانصاف سے کام لیں یعنی ظلم نہ کریں اللہ سبحانہ ان کے ساتھ ہوتاہے اورجب ظلم کا ارتکاب کرنے لگیں تواللہ سبحانہ ان کوان کے نفس کے حوالے فرمادیتاہے (ابن ماجہ،کتاب الاحکام،۲۳۱۲) یعنی اللہ سبحانہ کی رحمت وحمایت ان سے اٹھالی جاتی ہے اوروہ نفس کے حوالے کردئیے جاتے ہیں۔امام قرطبی نے کئی ایک کتب حدیث کے حوالوں سے یہ حدیث پاک بھی اس آیت کے ضمن میں نقل کی ہے ’’تم میں سے ہرشخص اپنے مرتبہ ومقام کے اعتبارسے پاسبان و مسئول ہے ‘‘ (بخاری:۵۲۰۰)یعنی جن امورکی نگہبانی وپاسبانی جس کے ذمہ کی گئی ہے ان کی نگہداشت نہ کرنے پراللہ سبحانہ کی ہاں جواب دہ ہے۔امام وخلیفہ ،حکام ووزراء بھی اپنی رعایہ وما تحتین کے نگہبان ہیں ،صدرخاندان اورشوہربھی اپنے اہل وعیال کے نگہبان ہیں اوربیوی بھی اپنے شوہرکے گھرکی نگہبان ونگران ہے ہرایک اپنی حیثیت کے مطابق مسئول یعنی جوابدہ ہے۔ معاشرہ میں اس وقت ظلم عام ہے،سیاسی سطح پربھی ظلم ہی کا دوردورہ ہے، اکثرحکمران عدل وانصاف کے تقاضوں کوملحوظ رکھنے سے قاصرہیں،ملک کے اکثرشہری مظلومیت کا شکارہیں،تجزیاتی رپورٹیں اکثر شائع ہوتی رہتی ہیں جن کے مطابق ملک کے اکثرشہری غریب وپسماندہ بلکہ سطح غربت سے بہت نیچے رہتے ہوئے غربت و پسماندگی،مظلومیت ومقہوریت کی زندگی گزارنے پرمجبورکردئیے گئے ہیں ۔مسلم وغیرمسلم دانشوروں فکرمندارباب حل وعقدکی محنتوں اورقربانیوں سے ملک آزادہوسکاہے اورانگریزوں کی غلامی سے نجات مل سکی ہے،ملک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تویہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ ملک آزادہوجانے کے باوجود انسانیت عملا غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔صرف آقا تبدیل ہوگئے ہیں،پہلے انگریزحاکم تھے اوراب ہمارے ملک کے سیاسی لیڈر رعایا کے آقاو حاکم بنے بیٹھے ہیں،ان میں سے اکثر نہیں چاہتے کہ قوم وملت ترقی کرے ،ملک سے غربت وافلاس کا خاتمہ ہو،بھوک مری مٹے۔ ماہ اپریل ۲۰۱۹؁ء پورے ملک میں پارلیمانی انتخابات منعقدہورہے ہیں، یہ انتخابات ملک وملت اوراس ملک کے جمہوری اقداروسیکولرکردار کی حفاظت میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں۔اس لئے ہرشہری کواپنے حق رائے دہی سے ضروراستفادہ کرناچاہئے،خاص طورپرمسلمانوں کوضرور ملک وملت کے مفاد کوعزیزرکھنے والے باکرداروباصلاحیت امیدواروں کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرناچاہئے۔مسلمانوں کے بارے میں تجزیہ نگاروں کی تحقیقاتی رپورٹ یہ ہے کہ ملک کے پچاس فیصدمسلمانوں کے ووٹرآئی ڈی نہیں ہیں ،اورجن پچاس فیصد مسلمانوں کے نام رائے دہندگان کی فہرست میں شامل ہیں ان میں صرف پچاس فیصدمسلمان ہی اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کررہے ہیں،اس پرسنجیدگی سے غوروفکرکرکے صدفیصدحق رائے دہی سے مسلمانوں کواستفادہ کرناچاہئے اس سے غفلت بہت بڑی بھول ثابت ہوگی جس سے عمومی طورپرملک وقوم کے مجموعی نقصان کے ساتھ ملت اسلامیہ کودیرپا ناخوشگوار نتائج کاخمیازہ بھگتنا پڑسکتاہے۔ الامان والحفیظ۔وما ذلک علی اللہ بعزیز۔