انتخابات اورامیدواروں کاناشائستہ رویہ

ہندوستان بھرمیں مختلف تواریخ میں عوامی امیدواروں کے انتخاب کا سلسلہ جاری ہے،انتخابات سے قبل امیدوارعوام سے رابطہ قائم کرتے ہیں اس سلسلہ میں شخصی ملاقاتیں کارنرمیٹنگ اورعام جلسے منعقدکئے جاتے ہیں تاکہ عوام کویہ یقین دلایا جاسکے کہ وہ عوام کی فلاح وبہبوداوران کے بنیادی ضروری مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اسی جذبہ خدمت سے وہ میدان سیاست میں آئے ہیں ،ان کا مقصدصرف اورصرف ملک وقوم کی خدمت اورملت کی خیرخواہی ہے،ظاہرہے ایک جمہوری ملک میں ہرشہری کوجوسیاسی سوجھ بوجھ رکھتاہواورعوام کی بے لوث خدمت کرنا چاہتاہواس کو انتخابات میں یک امیدوارکی حیثیت سے ضرور حصہ لینا چاہیے۔البتہ امیدوار کواخلاقی حدودوقیودکا پابندہوناچاہیے ،ایسا ہرگزنہیں ہوناچاہیے کہ کوئی امیدواردوسرے امیدوارپرتنقیدکرتے ہوئے اس کی تنقیص وتضحیک کا پہلواختیارکرے،تنقیص وتضحیک سے عام طورپردوسرے کی تحقیروتذلیل مقصودہوتی ہے جس سے خود کی بڑائی وخوئے انانیت جھلکتی ہے ،یہ ایک باطنی مرض ہے جو انسان کواخلاقی سطح سے نیچے گرا دیتا ہے اوروہ خود بھی لوگوں کی نگاہوں سے بھی گرجاتاہے، حسن اخلاق وکردارکا مالک کوئی شہری خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہووہ بھی اس کوگوارہ نہیں کرتا۔
اسلام کسی کی جان و مال، عزت وآبروسے کھلواڑ کی قطعااجازت نہیں دیتا(ترمذی:۲؍۱۴)کسی کا مذاق اڑانا اس کی عزت وآبروپرحملہ ہے،اس کی قباحت وشناعت جسمانی ضررونقصان پہنچانے سے کہیں زیادہ ہے ، اس لئے تمسخرواستہزا غیراسلامی وغیراخلاقی افعال ہیں، اللہ سبحانہ کا ارشادہے ’’نہ مردوں کاکوئی گروہ دوسروں کا مذاق اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہترہو،نہ خواتین کا کوئی گروہ دوسری خواتین کا مذاق اڑائے کہ وہ ان سے بہترہو،اورآپس میں ایک دوسرے کوعیب نہ لگائواورنہ کسی کوبرے القاب سے نوازو،ایمان کے بعدفسق برانام ہے(الحجرات:۱۱)
کسی کی تحقیروتذلیل اورآبروریزی موجب لعنت عمل ہے۔فرشتوں اورتمام انسانوں کی اس پرلعنت ہوتی ہے ،اس کے نوافل وفرائض بھی قبول نہیں ہوتے(بخاری:۴۴۰)دوسرے اس میں اس عمل کے کرنے والے سے غروروتکبرکا اظہارہوتاہے اس لئے بھی اس کی ممانعت ہے۔حدیث پاک میں واردہے’’جس کے دل میں رائی کے برابرغرورہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا‘‘کسی نے عرض کیا یارسول اللہ !ایک شخص چاہتاہے کہ اس کا لباس اچھاہو،اس کی پاپوش (جوتی)اچھی ہو؟آپ ﷺنے فرمایا اللہ سبحانہ جمیل ہے اورجمال کوپسندفرماتاہے(گویا یہ تکبرنہیں)تکبرکہتے ہیں حق سے منہ موڑنے اوردوسروں کوکمترسمجھنے کو(مسلم:۱۳۱) تمسخرواستہزاسے لازماً دل آزاری ہوتی ہے،کسی کی دل آزاری وایذارسانی مومنانہ شان کے منافی ہے،حدیث پاک میں واردہے’’(حقیقی معنی میں )مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ کی ایذاء سے دوسرے انسان محفوظ رہیں‘‘(شعب الایمان :۱۰۶۱۰ )
تمسخرواستہزاء کے ذریعہ کبھی حقیقی عیوب کی پردہ دری کی جاتی ہے توکبھی مفروضہ عیوب کا سہارہ لیکر کسی کومذاق کا نشانہ بنایا جاتاہے ۔ کسی کے واقعی عیوب کسی اورپرکھل گئے ہوں تو اسلام نے سترپوشی کی ہدایت دی ہے (سنن ابن ماجہ: ۲۵۳۴) فرضی عیوب سے کسی کومتہم کرنا جھوٹ بھی ہے اورتہمت بھی یہ دونوں گناہ ہیں۔احادیث پاک میں ان پرسخت وعید وارد ہے، اس سے چونکہ دوسرے کی تحقیروتذلیل بھی ہوتی ہے اس لئے یہ تیسرا گناہ ہے۔بلاوجہ کسی کوایسے نام سے پکارنا جس سے اس کی تحقیر وتذلیل اوردل آزاری ہوتی ہویہ بھی غیراخلاقی فعل ہے،اس آیت پاک میں یہ نہیں فرماگیا کہ تم ایک دوسرے کی عیب چینی نہ کروبلکہ یہ فرمایا گیا ’’ولا تلمزوا انفسکم‘‘تم اپنی عیب جوئی نہ کیا کرو،اس طرزتخاطب میں بلیغ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ کسی اورکی برائی بیان کرناگویا اپنی برائی بیان کرنا ہے کیونکہ وہ انسانی رشتہ یا ایمانی رشتہ سے ہمارابھائی ہے ،بھائی کوبدنام کرنا اپنے آپ کوبدنام کرناہے۔کسی کی رسوائی تنہاء اس کی رسوائی نہیں بلکہ اس میں اپنی رسوائی کا سامان ہے،بعضوں نے یہ بھی توجیہ بیان کی ہے کہ کسی اورکے عیوب ونقائص بیان کرنے والا کوئی فرشتہ نہیں کہ اس میں کوئی عیب نہ ہونتیجہ یہ ہوگا کہ وہ بھی اس کے عیوب ونقائص کی ٹوہ میں رہے گا اورانہیں طشت ازبام کرکے دل کی بھڑاس نکالے گا۔
مذاق اڑانے کے مختلف طوروطریق اس وقت معاشرہ میں رائج ہیں ،کسی فرد یا جماعت کامذاق اڑ ا نا ہوتو کبھی الفاظ کا سہارا لیا جاتاہے ،اس کی حقیقی یا پھرفرضی خامیوں اورکمزوریوں کو بیان کرتے ہوئے طنزوتشنیع کے تیربرسائے جاتے ہیں اورایسا دل آزارانہ طرزکلام اختیارکیا جاتاہے جواس کیلئے باعث اذیت ہو۔لعن وطعن ،فحش کلامی وبدگوئی مومنانہ شان کے مغائرہے (ترمذی:۱۹۷۷)سننے والے اگرغیرشائستہ افرادہوں تو اس سے خوب مزہ لیتے ہیں ۔ عام طورپراس طرح کے بیانات سیاسی پلیٹ فارم سے سنے جاتے ہیں ،ایک دوسرے پرکیچڑاچھالنا ضروری سمجھاجاتاہے،اورکبھی عوام سیاستدانوں کومذاق کا موضوع بناتے ہیں ،سیاستدانوں کی ایسی خرابیاں جوملک وقوم کونقصان پہنچاتی ہیں جیسے کرپشن ،گھٹالے، سیاسی عہدہ ومنصب کے بل بوتے پر عوامی املاک پر ناجائزقبضے، جبروظلم سے غریب تاجروں وصنعت کاروں کو ڈروخوف دلاکرہفتہ واری یا ماہانہ کمیشن کی وصولی وغیرہ۔ظاہرہے اس کے خلاف ضرورآوازاٹھائی جاسکتی ہے لیکن ان کی نجی وخانگی زندگی کومذاق کا نشانہ بنانا یا ان کے شخصی عیوب کی پردہ دری کرنا جائزنہیں ہوگا۔تمسخرواستہزاء کے لئے آج کل کارٹون بنائے جاتے ہیں جس میںکسی کی تضحیک وتنقیص کودل آزارانہ کارٹون سے نمایاں کیا جاتاہے۔ایسے کارٹون جوتنقیدبرائے تنقیص وتخریب کیلئے ہوں اسلام ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا البتہ ایسے کارٹون جوتنقیص برائے
تعمیرہوں ان کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

عوام ہوں کہ سیاستداں تنقیدکرتے ہوئے اخلاق کا دامن ضرورتھامے رہیں،گھٹیا وغیرمعیاری اندازگفتگوکسی کو زیبانہیں،تنقیدمیں بھی مومنانہ اخلاق کی جھلک ہونی چاہیے لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ اخلاقی اقداربھی روبہ زوال ہیں،کبھی بداخلاقی ودل آزاری کوپسندنہیں کیا جاتا تھا ،کوئی اس کا مرتکب ہوتا تواس کوپسندیدہ نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا تھا،اس سے علاقہ وتعلق رکھنا یا اس کی بات چیت سننا بھی گوارہ نہیں کیا جاتاتھا،اوراب ذوق سماعت بگڑچکاہے۔پہلے جوباتیں سماعت پرگراں گزرتی تھیں وہ اب بھلی معلوم ہونے لگی ہیں،مقررجب تک مرچ مسالحہ لگاکردوسروں کی آبروریزی نہیں کرتا اس کی تقریرپسندنہیں کی جاتی،کسی پرناروالعن طعن کی جائے اس کواوراس کے خاندان کومطعون کیا جائے توبڑے ذوق وشوق سے اسے سناجاتاہے،دوران تقریرنعرے لگائے جاتے ہیں اوراظہارپسندیدگی کے طورپرشوروغوغاکیا جاتا ہے ۔ ،اورایسی بداخلاقی کے مظاہرے ہوتے ہیں کہ الامان والحفیظ، سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ فحش کلامی ، چیخنے چلانے ،شوروغوغا کرنے کو ناپسند فرماتے تھے(ترمذی:۲۰۱۶) لم یکن فاحشا ولا متفحشا ولا صخابا فی الاسواق۔

امیدواروں کوچاہیے کہ وہ ملک وقوم کی خدمت کواپنا نصب العین بنائیں،اس مقصدکیلئے میدان سیاست میں آنے والوں کوچاہیے کہ وہ اپنے انتخاب کی دعوت دیتے ہوئے ان عزائم کا اظہارکریں جس کووہ سرانجام دے سکتے ہوں اورجوعوامی فلاح وبہبوداورملک وقوم کی ترقی کا باعث ہوں۔اس وقت تعلیم،روزگار،صحت جیسے اہم بنیادی مسائل غریب ومتوسط طبقات کیلئے ایک بہت بڑاچیلنج ہیں ،وہ امیدواراوروہ جماعتیںجواس میں سنجیدہ ہوں اورقوم وملت کے اس اہم کازمیں کوئی کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہوں ان کوضروریہ کام کرناچاہیے،کرنے کے اصل کام یہی ہیںصرف بلند وبانگ دعوے جس پرعمل ندارد امیدواروں اورقوم کے خدمت گزاروں کوزیب ہی نہیں دیتا کہ وہ انتخاب میں جھوٹے وعدوں کا سہارہ لیں۔ملک وقوم کی ترقی میں اخلاقی اصول وضوابط کی پابندی ،کردارکی پاکیزگی وشفافیت بڑی اہمیت رکھتی ہے،اس لئے امیدواروں کوخاص طورپراس کا پاس ولحاظ رکھناچاہیے اورعوام کوبھی ایسے ہی باصلاحیت وباکردارامیدواروں کومنتخب کرناچاہیے۔