اناروں کا باغ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیر زمان اپنے وزیروں ار مصاحبوں کے ہمراہ شکار کیلئے جنگل گیا ۔ سب لوگ شکار کیلئے ادھر ادھر گھوڑے دوڑاتے رہے حتی کہ دوپہر ہوگئی ۔ اسی دوران سب ایک دوسرے سے الگ ہوگئے ۔
آخر کار اس نے تھک کر ایک سایہ دار باغ میں پناہ لی ۔ دیکھا کہ وہاں ایک لڑکی کام کاج میں مصروف ہے ۔ شیر زمان نے اس سے پانی مانگا تو وہ لڑکی ایک انار توڑ کر لائی اور اس کا سارا رس گلاس میں بھر کر شیر زمان کو پیش کیا ۔ شیر زمان نے اس نے لڑکی سے ایک اور گلاس مانگا ۔ لڑکی ایک اور انار توڑ کر لائی اور اس کا رس نکالا تو اس بار گلاس آدھابھرا شیر زمان نے سوچا کہ ایسا باغ جس کے ایک انار کے پھل سے پورا گلاس بھر جاتا ہے اس سے مالک کو تو بہت فائدہ ہوتا ہوگا ۔ کیوں نہ اس پر ٹیکس لگاکر حکومت کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے ۔ شیر زمان نے وجہ پوچھی تو لڑکی بولی ۔ لگتا ہے ہمارے بادشاہ کی نیت خراب ہوگئی ہے ۔ جس کی وجہ سے اب ایک انار سے بھی گلاس نہیں بھرا ۔ شیر زمان کو اپنی سوچ پر شرمندگی ہوئی ۔ اس نے کہا کہ مجھے بہت پیاس لگی ہوئی ہے ۔ اس لئے ایک اور گلاس مجھے دو ۔ میں نے کچھ نہیں کھایا ۔ اس بار لڑکی انار توڑ کر لائی اور گلاس بھر گیا ۔ شیر زمان انار کا رس پی کر بولا اور اپنا تعارف کرایا ۔ ملک میں خیر و برکت حکمران کی اچھی نیت اور سوچ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس نے لڑکی کو اس کی سمجھ داری کی وجہ سے انعام دیا اور اس علاقہ کے وزیر کو حکم دیا کہ اس باغ اور اس لڑکی کا خاص خیال رکھے ۔ اس کے بعد اس نے ہمیشہ کیلئے اپنی خدمات اور وقت اپنی رعایا کیلئے وقف کردیا ۔