’’امن بردار فوج میں حصہ دار ممالک کو فیصلہ سازی کا حق نہیں‘‘

مودی کا اظہارتاسف، امن بردار فوج کو قیام امن اور سیکوریٹی کے علاوہ دیگر کئی چیالنجس کا سامنا
اقوام متحدہ ۔ 29 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) زائد از 50 ممالک بشمول ہندوستان، چین اور امریکہ کے قائدین نے آج یہ عزم کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے امن بردار آپریشن کو عصری بنائیں گے اور ساتھ سلامتی کونسل کے ساتھ ان ممالک کے مشاورتی تعلقات میں استحکام پیدا کریں گے جن ممالک کی افواج امن بردار فوج میں شامل ہے۔ وزیراعظم ہند نریندر مودی، امریکی صدر بارک اوباما، چینی صدر ژی جن پنگ اور دیگر قائدین نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے ساتھ اعلیٰ سطحی امن بردار اجلاس میں شرکت کی جہاں ایک ایسا حلف لیا گیا جس کے تحت تمام 50 ممالک نے امن بردار آپریشن کو استحکام بخشنے اپنے وعدہ کا اعادہ کیا۔ قائدین نے کہا کہ امن برداری کو مزید مستحکم کرنے ہم سب اپنے وعدے کے پابند ہیں جو مختلف ممالک کی حکومتوں کی جانب سے اعلان شدہ ہیں اور اس طرح امن بردار فوج کو عصری ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا، ان کی تمام ضرورتوں کی تکمیل کی جائے گی۔ ان کی تعیناتی کو عاجلانہ طور پر یقینی بنایا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ مستقبل کی امن بردار امور کی بنیاد کو مضبوط کیا جائے گا۔ انہوں نے دیگر رکن ممالک سے بھی درخواست کی کہ وہ اقوام متحدہ کی امن برداری کیلئے اپنی خدمات پیش کریں۔ اسی طرح سلامتی کونسل اور امن بردار فوج میں جس ملک کی نمائندگی کرنے والے فوجی موجود ہیں، اس ملک کے قائدین کے درمیان مشاورتی تعلقات کو بھی مستحکم کیا جائے گا۔ نریندر مودی نے اپنے خطاب کے دوران اظہارتشویش کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ممالک جو اپنی افواج کے ذریعہ امن بردار فوج کی نمائندگی کررہے ہیں، ان ممالک کا فیصلہ سازی میں کوئی مؤثر رول نہیں ہے اور سینئر مینجمنٹ کے علاوہ فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے بھی نمائندگیوں کا فقدان ہے۔ انہوں نے ان نامساعد حالات کا بھی تذکرہ کیا جہاں رہتے ہوئے امن بردار افواج کو اپنی ڈیوٹی نبھانی پڑتی ہے۔ امن بردار افواج کو آج نہ صرف امن کے قیام اور سیکوریٹی کیلئے ہی طلب کیا جاتا ہے حالانکہ ان کے علاوہ بھی وہ کئی چیالنجس کا سامنا کرے ہیں۔ اعلامیہ میں واضح طور پر کہا گیا ہیکہ امن برداری آپریشنس کی تمام تر ذمہ داریاں رکن ممالک پر عائد ہوتی ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، فوج اور پولیس کے ذریعہ نمائندگی کرنے والے ممالک پر بھی تکیہ کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں مالیہ فراہم کرنے والے، میزبان ممالک، اقوام متحدہ سکریٹریٹ اور علاقائی تنظیمیں بھی اہم رول ادا کرسکیت ہیں۔ لہٰذا نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی امن بردار افواج کی صف میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ایک بار پھر اظہارتاسف کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ممالک جن کی فوج امن بردار فوج کا حصہ ہے، ان ممالک کا فیصلہ سازی میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہیکہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس نے امن بردار فوج کیلئے اپنے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد یعنی 180,000 مختص کی ہے اور اقوام متحدہ کی 69 کے منجملہ 48 مشنس میں ہندوستانی افواج کا مؤثر رول رہا ہے۔ اس طرح ہندوستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں سے فوجیوں کی بڑی تعداد امن بردار فوج کا حصہ ہے۔