امریکی صدارتی امیدوار کی مسلم دشمنی

امریکہ میں 1930 ء کے تاریک دنوں میں پادری چارلس کوفگلین نے قومی ریڈیو کا استعمال کرتے ہوئے یہودیوں کے خلاف نفرت کرنے کیلئے امریکی عوام کو اُکسایا تھا لیکن اس وقت کے ری پبلکن صدارتی امیدواروں نے یہودیوں کو امریکہ میں داخل ہونے سے روکنے کی اپیل نہیں کی تھی لیکن آج کے امریکی صدارتی انتخاب کے ری پبلکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ بھی ماضی کے امریکی پادری کے لب و لہجہ میں بات کرتے ہوئے مسلمانوں کو امریکہ میں داخل ہونے سے مکمل طورپر روکنے پر زور دے رہے ہیں ۔ اگرچیکہ ان کے بیانات کو امریکی عوام کی اکثریت اہمیت نہیں دیتی لیکن زہر افشانی کی عادتوں سے ماحول کو ابتر بنایا جاسکتا ہے ۔ آج امریکہ کے مخالف مسلم ماحول کو مزید خطرناک بنانے کیلئے ڈونالڈ ٹرمپ کے بیہودہ اور متنازعہ ریمارکس جلتی پر آگ کا کام کرسکتے ہیں ۔ مخالف مسلم سوچ کے ساتھ وہ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اُتر پائیں گے یہ وقت ہی بتائے گا ۔ اگر ری پبلکن کے دیگر صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں ٹرمپ کامیاب ہوتے ہیں تو وہ اپنی چرب زبانی کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی لیڈر ہلاری کلنٹن کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کریں گے ۔ ایک طرح سے ان کی مذہبی تعصب پسندی امریکی اقدار پر مبنی عوام کی رائے کو بدل دے گی اور پھر ایک بار امریکی صدارتی ذمہ داری ڈیموکریٹک کے تفویض کی جائے گی ۔ امریکی شہریوں کے ذہنوں اور زندگیوں میں مسلم دشمنی کا زہر گھولنے میں وہ کامیاب نہیں ہوں گے ۔ فرقہ پرستی کے نظریہ کو امریکہ میں اگر موقع دیا جاتا ہے تو پھر یہ اس ملک کے عوام کے لئے مستقل خطرات کا ماحول پیدا کردے گا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف امریکہ ہی شامل نہیں ہے بلکہ آج ساری دنیا دہشت گردی سے پریشان ہے جو لوگ دہشت گرد ہیں وہ ہوسکتا ہے کہ کل یہودی ، صیہونی اور دیگر شکلوں میں بے نقاب ہوجائیں ۔ لہذا دہشت گردی کو صرف ایک طبقہ تک محدود کرکے امریکی ری پبلکن صدارتی امیدوار ایک طرح سے اپنے ملک اور عوام کے لئے خطرات کا فلڈ گیٹ کھولنا چاہتے ہیں ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کو امریکہ میں داخلے پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا تو امریکہ کے عوام کی جانب سے ہی شدید ردعمل سامنے آیا ہے ۔ اور اس کی بڑے پیمانہ پر مذمت بھی کی جارہی ہے ۔ ری پبلکن پارٹی کے ہی دیگر امیدواروں نے ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان کو ناسمجھی اور غیرمحتاط بیان قرار دیا ہے ۔ سابق نائب صدر امریکہ ڈک چینی نے بھی ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے انھیں شعور سے عاری شخص قرار دیا ۔ کیلی فورنیا میں ایک مسلم جوڑے کی جانب سے فائرنگ کرنے اور 14 شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں مسلم دشمنی کی فضاء کو شدید بنانے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن صدر براک اوباما نے واضح طورپر کہا کہ اگر امریکہ دہشت گردی کو ناکام بنانا چاہتا ہے تو اسے مسلم طبقہ کے ارکان کو اپنے مضبوط ترین اتحادیوں کے طورپر ساتھ رکھنا ہوگا ۔ مسلمانوں پر شک کرنا اور ان کو نفرت کا شکار بناکر دور دھکیل دینا غلط ہوگا ۔ امریکی ایمگریشن قانون کی مخالفت کرنے والے ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکی رائے دہندے ہی مسترد کردیتے ہیں

تو ڈیموکریٹک کی سیکولر لیڈر ہلاری کلنٹن کی صدارت یقینی ہوگی ۔ امریکی بحریہ ، پولیس ، فوج اور دیگر اہم انٹلیجنس شعبوں میں خدمات انجام دینے والے امریکی مسلم نوجوانوں نے ٹرمپ کے بیان کے ردعمل میں ٹوئٹر پر بیانات اور شناختی کارڈس لوڈ کرتے ہوئے چیلنج کیا کہ وہ امریکی مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک ثابت کرکے دکھائیں ۔ جو سیاستداں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر قوموں میں تصادم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا مستقبل زیادہ تابناک نہیں ہوتا ۔د ہشت گردی کی مذمت اور مخالفت کرنے والوں میں مسلمان بھی ہیں ۔ آج جس دہشت گردی نے ساری دنیا میں انسانیت کا بحران پیدا کردیا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے امریکہ کے چند سیاستداں دہشت گردی کو خاص طبقہ سے مربوط کرتے ہوئے دہشت گردوں کا کام آسان کررہے ہیں اور یہ سوچ و حرکتیں بلاشبہ امن پسند دنیا کے حق میں نہیں ہے ۔ انسانیت کے جذبہ سے عاری لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرنا انسان دوست انسانوں کی ذمہ داری ہے ۔ دہشت گردی پوری انسانیت کیلئے چیلنج بن چکی ہے تو اب یہاں ڈونالڈ ٹرمپ جیسے لیڈروں کی اشتعال انگیزی قابل مذمت اور افسوسناک ہے ۔