امریکہ کی نئی افغان پالیسی

کیا مرے شہر کا نظارا تھا
جوں سمرقند یا بخارا تھا
امریکہ کی نئی افغان پالیسی
امریکہ نے بدلتے ہوئے حالات اور عالمی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور نئے انتظامیہ کے اقتدار کے عزائم پر مبنی نئی افغانستان پالیسی کا اعلان کردیا ہے ۔ امریکہ نے اس پالیسی میں کئی تبدیلیاں کی ہیں جو اس کے سابقہ موقف سے ہٹ کر ہیں۔ امریکہ نے پہلے افغانستان سے مرحلہ وار انداز میں اپنی افواج کی دستبرداری کا منصوبہ پیش کیا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ افغانستان کی سکیوریٹی فورسیس کو مستحکم کرنے اور حالات میں استحکام کے بعد یہاںسے امریکی افواج کو واپس طلب کرلیا جائیگا ۔ تاہم امریکہ نے اب جو پالیسی اختیار کی ہے جس کا چند دن قبل اعلان کیا گیا ‘ اس نے یہاں اپنی افواج کی دستبرداری کا امکان مسترد کردیا ہے اور کہا کہ اب افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ کیا جائیگا ۔ اس سے ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کے عزائم اور مقاصد کا اظہار ہوتا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ اپنے عزائم کو بزور طاقت مسلط کرنے اور ان کی تکمیل کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور اسی پالیسی کو انہوں نے افغانستان میں بھی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ افغانستان میں امریکہ کی افواج کی تعداد میں اضافہ کیا جائیگا بلکہ وہاں امریکی افواج کو کارروائیوں کے اختیارات میں بھی بے پناہ اضافہ کردیا جائیگا ۔ خود امریکی انتظامیہ نے اپنی نئی پالیسی میں یہ اعلان کیا ہے ۔ اس سے بھی افغانستان کے حالات میں بہتری کی بجائے ابتری پیدا ہوسکتی ہے ۔ پہلے ہی امریکی افواج پر یہ الزامات عائد ہوتے رہے ہیں کہ وہاں اس کی کارروائیوںمیں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ایسے حملے کئے جاتے ہیںجن میں معصوم بچے اور خواتین بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔ بعض موقعوں پر تو خود افغان حکومت نے امریکی افواج کی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اسی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی سرد مہری بلکہ کشیدگی بھی پیدا ہوگئی تھی ۔ اس حقیقت کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ اپنی پالیسی کو اسی سمت میں لیجارہا ہے جس سے افغانستان کے حالات سدھارنے میں مدد ملنے کی بجائے اس میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا ۔ اس فیصلے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان کے حالات میں سدھار لانے سے زیادہ اپنے عزائم اورمقاصد کی تکمیل عزیز ہے اور اسی پر اس کی توجہ بھی مرکوز ہے ۔
امریکہ جنوبی ایشیا کے تعلق سے خصوصی دلچسپی رکھتا ہے ۔ وہ یہاں چین کے اثر کو کم سے کم کرنے کیلئے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ جہاں تک ہندوستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کا سوال ہے یہ دونوں ایک دوسرے کے مفادات پر مبنی ہوں اور اسی سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔ دونوں ملکوں نے سیول نیوکلئیر توانائی معاہدہ کرتے ہوئے اپنے باہمی تعلقات کو عروج پر پہونچا دیا تھا ۔ اس کے بعد سے مسلسل دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا جا رہا ہے اور یہ تعلقات مزید ہمہ جہتی ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہ بات دونوں ملکوں کیلئے فائدہ مند ہے اور ہندوستان ہمیشہ اس کا خیر مقدم کرتا رہے گا ۔ تاہم امریکہ جس طرح سے افغانستان میں اپنے عزائم کی تکمیل ‘ اور اپنے حریفوں کو نشانہ بنانے کیلئے ہندوستان کو آگے کر رہا ہے اس کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ بالکل قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے افغانستان میں ہندوستان کے مفادات ہیں اور ان کا تحفظ لازمی ہے ۔ ہندوستان ‘ انسانی بنیادوں پر افغانستان میں کئی کام انجام دے رہا ہیں۔ خاص طور پر وہاں تعمیر جدید کے کاموں میں ہندوستان سب سے آگے ہے ۔ ہندوستان کے ساتھ افغان حکومت کے تعلقات بھی انتہائی خوشگوار اور مستحکم ہیں۔ یہ جہاں ہندوستان کیلئے فائدہ مند ہیں وہیں اس سے زیادہ افغانستان کو اس سے فائدہ حاصل ہو رہا ہے ۔ ان باہمی تعلقات کو کسی تیسرے فریق کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بننے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے اور امریکہ اس معاملہ میں اسی بات کیلئے کوشاں ہے کہ ہندوستان کے رول کو پیش کرتے ہوئے خود اپنے عزائم پورے کرسکے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان افغانستان کی تعمیر جدید میں اہم رول ادا کر رہا ہے ۔ اسی رول کو وسعت دئے جانے کی ضرورت ہے اور ہندوستان ایسا کرتا رہے گا ۔ تاہم امریکہ نے جو نئی پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے وہ خود افغانستان کیلئے یا افغان عوام کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ اس تعلق سے اندیشے ضرور پیدا ہوگئے ہیں ۔ افواج کی تعداد میں اضافہ اور فوج کو ہر طرح کی کارروائی کے آزادانہ اختیارات افغانستان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں معاون نہیں ہوسکتے ۔ امریکہ کو چاہئے کہ وہ حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرے اور چین کی مخالفت میںافغانستان اور افغان عوام کو بلی کابکرا بنانے سے گریز کیا جائے ۔ افغانستان کی صورتحال کا استحصال کرنے کا سلسلہ رکنا چاہئے ۔ وہاں حالات کو بہتر بنانے اور عوام کو پرسکون ماحول فراہم کرنے پر سب کی توجہ ہونی چاہئے اور جو پالیسی ان بنیادوں پر اختیار کی جائیگی وہی افغانستان میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔