امریکہ میں اسلام سے متعلق منفی تاثرات

امریکہ میں عیسائیت کی اکثریت ہے، ہر سطح پر عیسائیت کو غلبہ حاصل ہے اور تاحال امریکہ میں عیسائیت کو بظاہر اسلام سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگرچہ وقفہ وقفہ سے نامور امریکی افراد کے مشرف بہ اسلام ہونے کی اطلاعات شائع ہوتی رہتی ہیں، مسلم آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے، مساجد کی تعداد روز افزوں بڑھتی جا رہی ہے، اسلامک سنٹرس میں اضافہ ہو رہا ہے، اسلام سے متعلق جانکاری کا رجحان عام ہو رہا ہے، اسلامی سرگرمیاں فروغ پا رہی ہیں، اس کے باوصف امریکی، اسلام کے فروغ سے فکرمند نہیں۔ وہ لوگ فکرمند ہیں تو عیسائیوں میں مذہب بیزاری کے فروغ سے فکرمند ہیں، کیونکہ نوجوانوں میں الحاد، دہریت، مذہب سے دوری، مذہبی مراسم سے بے التفاتی کا گراف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

امریکی عوام نہایت رحمدل، بااخلاق، خندہ پیشانی سے پیش آنے والے، ملاقات پر استقبال میں پہل کرنے والے، احترام کو ملحوظ رکھنے والے اور دیگر متعدد خوبیوں اور اچھائیوں کے حامل ہیں۔ وہ عیسائی مذہب پر سختی سے کاربند ہونے کے باوجود دیگر مذاہب و ادیان کے عقائد و نظریات، عادات و اطوار، مراسم و طریقہ ہائے عبادت اور تہذیب و تمدن کو جاننے اور معلومات حاصل کرنے میں کھلا ذہن رکھتے ہیں اور نہایت توجہ و انہماک سے آپ کے مذہب سے متعلق آپ کی وضاحت کو ضرور سنیں گے اور معلومات کا تبادلہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالجس میں عالمی مذاہب سے متعلق اضافی اور اختیاری مضمون داخل نصاب ہے اور اسلام سے متعلق مواد نہایت جامع، معلوماتی اور اسلام کی خوبیوں کو واضح کرنے والا ہے۔ انٹر فیتھ اور بین مذاہب پروگرامس کی پزیرائی کی جاتی ہے، اس کے باوصف امریکہ میں اسلام سے متعلق منفی رجحان و تاثر عام ہے۔ اسلام کو آزادی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں، اگرچہ تعلیم یافتہ طبقہ اور اسلام کے بارے میں جانکاری رکھنے والا گروہ اسلام کو الہامی مذہب تسلیم کرتا ہے، لیکن پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت طیبہ اور اسلام کی کئی تعلیمات پر اعتراض کرتا ہے۔ جہاد، تعدد ازدواج اور حجاب پر سختی سے اعتراض کرتا ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے تفصیلی تذکرہ کے باوجود اپنے آپ کو انبیائے بنی اسرائیل کا حقیقی وارث سمجھتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوات میں شرکت اور تعدد ازدواج کے بالمقابل حضرت عیسی علیہ السلام کی شفقت و رحمت پر مشتمل تعلیمات کی پزیرائی کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اہل مغرب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ شخصیت اور بے عیب سیرت مقدسہ کو متہم و مشکوک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

9/11 کے بعد بطور خاص میڈیا کے پروپیگنڈا نے امریکی ذہن و دماغ کو متاثر کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ جب کوئی عیسائی یا ہندو دہشت گردانہ کارروائی میں مجرم قرار پاتا ہے تو اس کو اس کا انفرادی عمل اور شخصی جرم قرار دیتے ہیں اور دنیا کے کسی کونے میں کوئی مسلمان دہشت گرد حملے یا غیر قانونی کام میں گرفتار ہوتا ہے تو سارے مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اور اسلام کو دنیا میں ہر خرابی، فساد، فتنہ اور بدامنی کا محور قرار دیا جاتا ہے۔

امریکہ میں گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ کی پزیرائی کی جاتی ہے اور اس کو ہندومت سے جوڑکر ہندوازم کو امن پسند مذہب باور کروایا جاتا ہے، اگرچہ امریکہ کے لوگ بت پرستی اور شرک کو نہایت غیر معقول گردانتے ہیں۔ دلائی لامہ کے نظریہ کی بناء بدھ مت امریکہ میں خاصا مثبت تاثر رکھتا ہے۔ برما کی بربریت، مسلمانوں کی نسل کشی، درندگی، حیوانیت کے باوجود بدھ مت کو امریکی خوشگوار نظر سے دیکھتے ہیں۔

میڈیا نے سادہ لوح امریکی عوام کے ذہن و دماغ میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق خوف و دہشت کے بیج بو دیئے ہیں۔ والمارٹ میں میرے لباس، داڑھی اور ٹوپی کو دیکھ کر کم عمر بچے ملنے کے لئے آگے بڑھتے تو ان کے ماں باپ تیزی سے دوڑکر ان کو مجھ سے ملنے سے روک دیتے۔
یمن کے ایک عربی چینل پر عربی زبان میں میرا ایک انٹرویو شائع ہوا۔ امریکہ میں مقیم یمنی انٹرویو نگار (فاطمہ واصل) نے دوران انٹرویو ایک اہم سوال کیا کہ اسلام میں دہشت گردی اور تشدد کی کوئی گنجائش نہیں، اسلام اور تشدد دونوں باہم ایک دوسرے کے نقیض اور ضد ہیں، اس کے باوصف ہم امریکی ذہن سے ان کے شکوک و شبہات کے ازالہ میں ناکام کیوں ہیں؟۔ میں نے جواب دیا کہ ہم اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعہ اسلام کی امن پسند تعلیمات اور تشدد و دہشت گردی سے متعلق اسلام کے نظریہ کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں، لیکن مسلم ممالک میں جو باہم قتل و خون ہو رہا ہے، عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں، مسلمان ایک دوسرے کو جس بے رحمی سے قتل کر رہے ہیں اور مسلم حکمراں اپنی رعایا پر جو ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہیں، یہ ساری چیزیں دشمنان اسلام کے پروپیگنڈا پر مہر تصدیق ثبت کر رہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور مسلم ممالک میں حکمراں اور مسلمانوں کے معاملات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم حکمرانوں کی نااہلی، دنیا طلبی اور اقتدار کی ہوس نے اسلامی وقار کو مجروح کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

امریکہ میں عیسائیت اور یہودیت کے درمیان نفرت و عداوت کی مضبوط دیواریں قائم تھیں۔ امریکہ کے عیسائی، یہودیوں کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کو قطعاً پسند نہیں کرتے۔ بیسویں صدی کے اوائل بلکہ وسط تک ان کی دشمنی نمایاں تھی، پھر دھیرے دھیرے امریکہ میں یہودی دشمنی کا رجحان کم ہوتا گیا اور مثبت تبدیلی رونما ہوتی گئی اور آج یہودی دشمنی بالکل مفقود ہے، یہاں تک کہ امریکی عوام فلسطین کے مسئلہ پر اسرائیلی بربریت کے خلاف ضرور ہیں، مگر وہ فلسطین کو یہودیوں کا بنیادی حق سمجھتے ہیں اور وہ ان کی ارض مقدس اور Promised Land اور سابق دور میں مسلمانوں کو قابض اور غاصب تصور کرتے ہیں۔

اسلام اور مغرب دو علحدہ اصطلاحات ہیں۔ اسلام، عقائد و نظریات اور مسائل و احکام پر مبنی ایک دین و مذہب ہے اور مغرب جغرافیائی اصطلاح میں ایک خاص خطہ زمین پر دلالت کرتا ہے، لیکن آج اسلام کو مغرب کے بالمقابل اور مغرب کو اسلام سے متصادم سمجھا جاتا ہے، جب کہ اسلام جس طرح اہل مشرق کے لئے قابل عمل ہے، اسی طرح اہل مغرب کے لئے لائق تعمیل ہے اور بعض مسلمانوں کی شدت پسندی کی وجہ سے بھی اہل مغرب اسلام کو اور مسلمان، مغرب کو باہم ایک دوسرے کے لئے نقصاندہ تصور کر رہے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان امریکہ اور مغربی ممالک میں اپنی اسلامی تہذیب و شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے بڑے کامیاب ہیں اور مسلم خواتین حدود شریعت میں رہتے ہوئے مغربی ماحول میں کامیاب زندگی بسر کر رہی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو عزم و ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے برادران وطن سے تعلقات قائم کرکے اپنی تہذیب، تشخص اور امتیاز کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی غلط فہمیوں اور شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا ضروری اور یہ عمل موجودہ وقت میں اسلام کی بہت بڑی خدمت ہے۔