امرتسر سانحہ ‘ ذمہ دار کون

تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو
رک گئے راہ میں حادثہ دیکھ کر
امرتسر سانحہ ‘ ذمہ دار کون
امرتسر میں دسہرہ تہوار کے موقع پر ایک سانحہ پیش آیا جہاں ایک ٹرین نے پٹریوں پر تہوار کی خوشیاں منانے میں مصروف 59 افراد کو روندڈالا ۔ چند سیکنڈ میں جو لوگ خوشیاں منارہے تھے ان کے خاندانوں میںصف ماتم بچھ گئی ۔ لوگ روتے پیٹتے اپنے عزیز و اقارب کو خون میں لت پت حالت میں دیکھ رہے تھے اور چند منٹ پہلے جو جوش و خروش اور خوشیاں دکھائی دے رہی تھیں وہ اچانک ہی ماتم میں بدل گئیں۔ تہوار کا ماحول یکسر غم کے منظر نامہ میں بدل کر رہ گیا ۔ یہ ایک انسانی سانحہ ہے ۔ چند سیکنڈ کے اندر اندر درجنوں افراد موت کے گھاٹ اتر گئے اور درجنوں گھروں میں ماتم شروع ہوگیا ۔ مزید کئی افراد شدید زخمی حالت میںدواخانوں میں پہونچادئے گئے اور سارا منظر نامہ ہی بدل کر رہ گیا ۔ اس ساری صورتحال میں پہلے تو کسی کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی اور سبھی اس سانحہ سے اپنے آپ کو اوپر لانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے تھے اور جب ان سب کی شناخت ہوگئی اور ان کی آخری رسوم شروع ہوگئیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس سانحہ کی ذمہ داری عائد کرنے کے معاملہ میںسیاسی کھیل شروع ہوگیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے اس سانحہ پر جو موقف اختیار کیا جا رہا ہے وہ ناقابل فہم ہے ۔ چاہے وہ مرکزی حکومت ہو یا پھر پنجاب کی ریاستی حکومت ہو ۔ دونوں ہی حکومتیں اس معاملہ سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی حکومتوں کو اس سانحہ کی ذمہ داری اپنے اپنے طور پر قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سانحہ میں کوئی سیاسی مقصد براری تلاش کرنے کی بجائے یا پھر اپنا دامن بچانے کی بجائے انسانی بنیادوں پر متاثر ین کا غم بانٹنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ جو لوگ زخمی ہوکر دواخانوں میں بھرتی کئے گئے ہیں انہیں بہتر سے بہتر علاج کی سہولت فراہم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور متاثرہ خاندانوں کو ہر ممکن امداد فراہم کرنے کے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ حکومتیں اس فریضہ کی ادائیگی کی بجائے اپنا اپنا دامن اس سانحہ سے بچانے میںمصروف ہوگئی ہیں اور عوام کی نظر میں اپنی اپنی شبیہہ کو بچانے کی انہیں زیادہ فکر لاحق ہوگئی ہے ۔
مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس سانحہ کیلئے ریلوے ذمہ دار نہیں ہے اور نہ ہی اس ٹرین کے ڈرائیور کے خلاف کوئی کارروائی کی جائیگی جس نے یہاں تہوار منانے میں مصروف افراد کو روند ڈالا ہے ۔ پٹریوں کے قریب کسی مذہبی یا دوسری نوعیت کے پروگرام کے انعقاد کی اجازت دینا خود خلاف قانون ہے ۔ ریلوے اور مرکزی حکومت اس بہانہ سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ پنجاب کی ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ پروگرام کے آرگنائزرس نے یہاں کسی نوعیت کے پروگرام کے انعقاد کی اجازت طلب نہیں کی تھی ۔ اس لئے ریاستی حکومت کو بھی اس کیلئے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی اپنی حیثیت میں دونوں ہی حکومتیں اس کیلئے ذمہ دار ہیں۔ پٹریوں کے آس پاس کی دیکھ بھال خود ریلویز کی ذمہ داری بنتی ہے اور اس کا عملہ موجود ہوتا ہے جو پٹریوں کی نگہداشت کا کام انجام دیتا ہے ۔ کہیں پٹریوں میں خرابی پائی جائے تو یہ عملہ فوری متعلقہ حکام کو اطلاع دیتا ہے اور اس کی درستگی انجام دی جاتی ہے ۔ اسی طرح جب پٹریوں کے قریب کوئی عوام کا اژدھام ہو تو بھی اسے اپنے متعلقہ حکام کو اس کی اطلاع دینی چاہئے تھی تاکہ مناسب اقدامات کئے جاتے ۔ لیکن متعلقہ عملہ نے ایسا نہیں کیا اس کے باوجود ریلویز کو اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے پر جوابدہ بنانے کی بجائے مرکزی حکومت اس کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔
دوسری جانب جہاں تک ریاستی حکومت کا سوال ہے جب آرگنائزرس نے کسی پروگرام کی اجازت طلب نہیں کی تھی تو پھر بلا اجازت پروگرام کے انعقاد کا موقع کیوں دیا گیا ۔ اس معاملہ میں ضلع انتظامیہ اور متعلقہ حکام اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن ریاستی حکومت بھی اجازت نہ طلب کئے جانے کا بہانہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرنے میں مصروف ہے ۔ یہ عوام کی ہی منتخب کردہ حکومتوں کا رویہ ہے جو قابل مذمت ہے ۔ ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دینے یا خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرنے کی بجائے دونوں ہی حکومتوں کو انسانی بنیادوں پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے آگے آناچاہئے تھا۔ اس میں عام لوگ زندگی سے محروم ہوئے ہیں اور حکومتیں اب بھی عوام کا درد سمجھنے کو تیار نہیںہیں۔