الیکشن کمیشن کی ذمہ داری

یہ اور بات ہے ہم پھنس گئے ہیں دلدل میں
جِدھر بھی دیکھئے لطف و کرم کی بارش ہے
الیکشن کمیشن کی ذمہ داری
لوک سبھا انتخابات 2019 کے دوران الیکشن کمیشن کے موافق حکمراں پارٹی بی جے پی رول کی نشاندہی کرتے ہوئے کانگریس نے اس دستوری ادارے کے جانبدارانہ رویہ کی مذمت کی ہے ۔ انتخابات میں ہر پارٹی کو انتخابی مہم چلانے کے لیے برابر کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ لیکن اس مرتبہ الیکشن کمیشن نے حکمراں پارٹی بی جے پی کی من مانی ، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کا خاموش تماشائی بن کر مشاہدہ کیا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی تقاریر اور بی جے پی کے دیگر قائدین کے بیانات سے انتخابی ماحول کو مسخ کردیا گیا لیکن الیکشن کمیشن نے حکمراں پارٹی کے خلاف اُف تک نہیں کیا ۔ یہ بڑی کوفت کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن ہندوستانی عوام کی خدمت میں بری طرح ناکام ہوا ہے ۔ جاریہ لوک سبھا انتخابات جہاں بی جے پی اور مودی کے لیے اہم ہیں وہیں اپوزیشن کانگریس کے لیے بھی کرو یا مرو جیسی صورتحال سے گذرنا ہے ۔ ایسے میں انتخابی عمل ایک طرف بنادیا جائے تو پھر اپوزیشن کے وجود کو ٹھیس پہونچانے کی کوشش کہا جائے گا ۔ سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے بی جے پی کی جانب سے چلائے جارہے ہیں قوم پرستی ، حب الوطنی کے پروپگنڈہ کو این ڈی اے کی ناکامیوں کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش قرار دیا ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ حکمراں جماعت نے اپنے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں جو وعدے کئے تھے ان میں سے کسی ایک کو بھی پورا نہیں کیا ہے ۔ البتہ ان انتخابات میں پیسہ پانی کی طرح بہا کر اپنے دوبارہ اقتدار کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے ۔ الیکشن کمیشن سے اس سلسلہ میں شکایت کی جاچکی ہے مگر اس نے اپوزیشن کی اس شکایت کو نظر انداز کردیا ۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے کئی واقعات ہوئے ہیں ۔ انتخابی جلسوں کے دوران سیکوریٹی فورس کی خدمات حاصل کی گئیں جو ضابطہ اخلاق کے مغائر ہے ۔ کانگریس نے انتخابی ضابطہ اخلاق سے متعلق 37 شکایتیں کی تھیں ان میں سے تقریبا 10 شکایتیں نفرت پر مبنی تقاریر ، انتشار پسندانہ بیانات ، عوام میں نفاق پیدا کرنے والے نعروں کے تعلق سے بھی شکایت شامل ہے ۔ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ خطوط پر منعقد کروانے بلا شبہ اب تک الیکشن کمیشن نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی لیکن اس مرتبہ اس کا رویہ موافق بی جے پی دیکھا جارہا ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کا اس پر اعتراض کرنا واجبی ہے ۔ حکمراں طاقت کی جانب سے اپوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے سرکاری مشنری کا بھی بیجا استعمال کرنے کی شکایت ہے ۔ جس میں انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ ، سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ۔ ان محکموں کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے تاکہ اپوزیشن امیدواروں کو ہراساں کیا جاسکے ۔ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق اور قاعدہ قانون کو بھی صرف اپوزیشن پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ حال ہی میں اس نے اپوزیشن پارٹیوں کو پابند کیا تھا کہ وہ اپنے امیدوار کا بینک اکاونٹس واضح کرے ۔ یہاں تک کہ کوئی امیدوار قومی پرچم پر خرچ کرتا ہے تو اس کا بھی حساب لکھنا ہوگا ۔ اگر الیکشن کمیشن کے اس اُصول پر سختی سے عمل کیا جائے تو بی جے پی کا ہر امیدوار الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا جائے گا ۔ ہر ایک بی جے پی امیدوار کو نا اہل قرار دیا جائے گا ۔ بی جے پی حکومت نے پانچ سال کے دوران کوئی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا البتہ بی جے پی اور مودی کو تنقید کا نشانہ بنانے والے لوگوں کو مخالف قوم یا قوم دشمن قرار دے کر انہیں کمزور اور خاموش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کا ہر شہری حب الوطن ہے اور کسی بھی حب الوطن شہری کو قوم دشمن قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ بی جے پی نے ہی حب الوطنی اور غیر حب الوطنی کی اصطلاح کو عام کرتے ہوئے اس ہندوستانی کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے جو بی جے پی کی پالیسیوں اور نظریہ کے خلاف بیان دیتا ہے ۔ بی جے پی کی اس طرح کی حب الوطنی کا کوئی معنی اور مطلب نہیں ہے مگر ملک میں یہ اتنی شدت سے اٹھایا جارہا ہے جس سے عام شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کررہا ہے ،ہر ہندوستانی شہری خوف زدہ دکھائی دیتا ہے ۔ قوانین غیر محفوظ ہیں ۔ دلتوں اور شیڈول کاسٹ ، صحافی ، ماہرین تعلیم بھی خوف کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ ایسے میں اپوزیشن کو ہی اپنی مورچہ بندی محفوظ کرتے ہوئے حکمران بی جے پی اتحاد کو کمزور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا ہر شہری خود کو محفوظ تصور کرتے ہوئے ان انتخابات میں ووٹ دے کر ایک مضبوط پارٹی کو اقتدار سپرد کریں ۔۔