الیکشن کمیشن بھی دباؤ میں ؟

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
الیکشن کمیشن بھی دباؤ میں ؟
ملک بھر میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ملک کی نصف سے زیادہ نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے جاچکے ہیں اور مابقی نشستوں کیلئے رائے دہی سے قبل انتخابی مہم اپنے عروج پر پہونچ چکی ہے ۔ ایسے میں کئی سیاسی قائدین کی جانب سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں بھی عروج پر پہونچ گئی ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ ملک کے وزیر اعظم اور ملک میں برسر اقتدار جماعت کے سربراہ کی جانب سے بھی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ باریکیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوانین سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے واضح اور صریح ہدایات جاری کی گئی تھیں جن میں یہ کہا گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے امیدوار ملک کی مسلح افواج یا سکیوریٹی فورسیس کی کامیابیوں کا کوئی تذکرہ اپنی تقاریر یا مہم کے دوران نہ کریں لیکن ان ہدایات کی دھجیاں اڑا دی گئیں ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ برسر اقتدار جماعت کے ملک کی سب سے بڑی ریاست کے چیف منسٹر نے ہماری عظیم فوج کو مودی جی کی سینا تک قرار دیدیا ۔ اس ریمارک سے ہماری فوج کا وقار متاثر ہوا ہے ۔ اس کے امیج کو نقصان پہونچانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کمیشن کی جانب سے عملا کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر اپوزیشن کا تو یہ الزام بھی ہے کہ کمیشن کی جانب سے صرف اپوزیشن کے قائدین کے خلاف مقدمات درج کئے جا رہے ہیں اور برسر اقتدار جماعت کے قائدین اور خود وزیر اعظم یا پھر بی جے پی کے صدر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے حالانکہ ان کے خلاف بے شمار شکایات ہیں اور ان شکایات کے ساتھ ثبوت و شواہد بھی پیش کئے جا رہے ہیں۔ خود نریندر مودی نے ملک کی مسلح افواج کے نام پر ‘ پلواما میں شہید ہونے والے سی آر پی ایف جوانوں کے نام پر اور بالا کوٹ فضائی حملے میں حصہ لینے والے فوجیوں کے نام پر ووٹ مانگا ہے اس کے باوجود کمیشن نے اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ اپوزیشن نے یہ شبہات ظاہر کئے ہیں کہ جس طرح سے ملک کے دوسرے خود مختار اداروں پر حکومت نے کنٹرول حاصل کرلیا ہے اب الیکشن کمیشن بھی حکومت کے دباؤ میں کام کر رہا ہے ۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مودی اور امیت شاہ اور ایسے ہی کئی قائدین کے خلاف کئی شکایات درج کروائی گئیں۔ کمیشن ضابطہ کی تکمیل کیلئے ان کی سماعت بھی کر رہا ہے لیکن عملا کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے اور نہ ہی کوئی سرزنش کی گئی ہے ۔ چند قائدین کے خلاف حالانکہ کمیشن نے کارروائی کی تھی جس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ کمیشن دوسرے قائدین کے بھی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کریگا لیکن ایسا ہوا نہیں ہے ۔ جو شکایات درج کروائی جا رہی ہیں ان پر کمیشن مسلسل کلین چٹ دینے میں مصروف ہوگیا ہے ۔ کمیشن پر حکومت اور برسر اقتدار جماعت کے دباؤ کے شبہات کو اس لئے بھی تقویت مل رہی ہے کیونکہ ماضی میں شائد کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے شیڈول کا الیکشن کمیشن کے اعلان سے قبل بی جے پی لیڈرس نے اپنے ٹوئیٹر پر اعلان کردیا تھا ۔ جہاں تک جاریہ انتخابات میں انتخابی ضابطہ کی خلاف ورزیوں کا سوال ہے تو یہ حقیقت ہے کہ بے شمار واقعات ایسے پیش آئے ہیں جہاں قوانین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ خود قانون کے رکھوالے اور ذمہ داروں نے ایسا کیا ہے لیکن کمیشن خاموشی اختیار کرنے کوہی ترجیح دے رہا ہے ۔ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ خلاف ورزی کرنے والوںکے خلاف کمیشن ان کے عہدہ اور رتبہ کا خیال کئے بغیر قانون کے مطابق کارروائی کرتا یا کم از کم ان کی سر عام سرزنش ہی کی جاتی ۔
الیکشن کمیشن ملک کے ایسے چنندہ خود مختار اور ذمہ دار اداروں میں شامل ہے جس کے ہاتھ میں ملک کی جمہوریت کی باگ ڈور ہے ۔ اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اب تک کئی موقعوں پر دیکھا گیا تھا کہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں پر الیکشن کمیشن کا خوف طاری ہوا کرتا تھا ۔ ایسی روایت ٹی این سیشن کے دور سے شروع ہوئی تھی تاہم بتدریج سیاسی جماعتوں کا خوف اور ڈر ختم ہوتا چلا گیا ہے اور اب کمیشن سے قانون کی باریکیوں کے ذریعہ کھلواڑ ہونے لگا ہے اور کمیشن اس میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے ۔ کمیشن کوا پنے تفویض اختیارات کے استعمال میں کسی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس پر عوام کا جو اعتماد اور بھروسہ ہے وہ متاثر نہ ہونے پائے اور برقرار رہے ۔