اللہ کے فضل کے بغیر نجات نہیں

امام رازی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ایک روایت لکھی ہے کہ وہ کہیں جا رہے تھے، راستے میں ایک قبر نظر آئی، آپ کو کشف سے معلوم ہوا کہ صاحب قبر عذاب میں مبتلا ہے، آپ دعا کرکے گزر گئے۔ پھر ایک عرصہ کے بعد وہیں سے آپ کا گزر ہوا تو دیکھا کہ صاحب قبر جنت کی نعمتوں سے بہرہ ور ہے اور بڑے عیش و آرام میں ہے۔ اپ نے اللہ تعالی سے پوچھا: ’’باری تعالی! مرنے کے بعد اس نے اب کونسا عمل کیا ہے کہ اس کی مغفرت ہو گئی؟‘‘۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اے ہمارے نبی! یہ شخص بدعمل تھا، جس کی وجہ سے اس کو سزا دی جا رہی تھی، لیکن دنیا میں اس نے اپنا ایک چھوٹا بچہ چھوڑا تھا۔ اب وہ بولنے لگا ہے تو اس کی ماں نے اسے مکتب میں بٹھادیا اور اب وہ ’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘ پڑھنے لگا ہے، تو مجھے شرم آتی ہے کہ اس کا بچہ تو میرا نام لے رہا ہو اور میں اسے عذاب دوں!، لہذا میں نے اس کے بچہ کی وجہ سے اس سے عذاب اٹھا لیا‘‘۔
ایک نبی ایک قبرستان سے گزرے، وہ قبرستان نیا نیا آباد ہوا تھا۔ ساری قبریں تو اچھی بنی ہوئی تھیں، لیکن ان صاحبان قبور کو عذاب ہو رہا تھا۔ پھر ایک عرصہ کے بعد وہ نبی اس قبرستان پر گزرے تو دیکھا کہ ساری قبریں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں، سارا قبرستان ویرانہ بن گیا ہے، لیکن آپ کو کشف ہوا کہ صاحبان قبور بڑے عیش و آرام میں ہیں۔ انھوں نے اللہ تعالی سے پوچھا: ’’اے اللہ! ان کی مغفرت کیسے ہو گئی؟‘‘۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’ان کی قبریں ٹوٹ پھوٹ گئیں، اب ان کا کوئی پرسان حال بھی نہیں رہا، مجھے رحم آگیا، لہذا میں نے عذاب اٹھالیا اور ان کی مغفرت کردی‘‘۔
مرنے والا گنہگار اور بڑا گنہگار ہے، لیکن لوگ اس کے جنازے میں شریک ہوکر دعائے مغفرت کرتے ہیں تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میرے اتنے بندے اس کو اچھا سمجھ رہے ہیں اور اس کی مغفرت کی دعا مانگ رہے ہیں اور میں اس کو عذاب دوں، اس لئے میں اس کو بخش دیتا ہوں۔ یعنی دعا بخشش کا سبب بن گئی اور رحمت خداوندی سے اس کی نجات ہو گئی۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث شریف نقل کی ہے کہ بنی اسرائیل ایک شخص بڑا عابد و زاہد تھا۔ اپنی افتاد طبع کی وجہ سے جب اس کا عبادت کی طرف مزید رجحان ہو گیا تو وہ ترک دنیا کرکے ایک جزیرے میں جا بیٹھا، جو آبادی سے یکسر خالی تھا۔ وہاں وہ مکمل یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہو گیا۔ اللہ تعالی نے اس کے لئے وہاں انار کا ایک درخت پیدا فرمادیا اور میٹھے پانی کا چشمہ جاری کردیا۔ اب یہ عابد انار کھالیتا، پانی پی لیتا اور اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہتا۔ اللہ تعالی نے اسے پانچ سو برس کی زندگی عطا فرمائی۔ آخر عمر میں اس نے دعا کی: ’’یااللہ! میری دو دعائیں قبول فرمالے، ایک یہ کہ مجھے سجدے کی حالت میں موت دینا اور دوسری یہ کہ میرے جسم کو قیامت تک اسی حالت میں باقی رکھنا، تاکہ جب میں حشر میں اٹھوں تو سجدے کی حالت میں اٹھوں‘‘۔ اللہ تعالی نے اس بندے کی دونوں دعائیں قبول فرمالیں اور اس کے مرنے کے بعد اس جزیرے میں بڑے بڑے درخت اگادیئے، جن کی وجہ سے اس جزیرے میں کوئی جا نہیں سکتا اور اس کی لاش سجدے کی حالت میں محفوظ فرمادی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اب حشر میں یہ شخص سجدے کی حالت میں اٹھ کر آئے گا اور اللہ تعالی اس سے فرمائے گا: ’’اے میرے بندے! اب تو میرے فضل و کرم سے جنت میں چلا جا‘‘۔ بندہ عرض کرے گا: ’’باری تعالی! میں نے پوری زندگی تیری عبادت میں گزاری ہے، میرے نامہ اعمال میں تیری کوئی نافرمانی بھی نہیں، لہذا میں جاؤں گا تو اپنے عمل اور اپنی عبادت کی وجہ سے جاؤں گا، تیرے فضل کا کیا سوال ہے؟‘‘۔ اللہ تعالی فرمائے گا: ’’یہ سب کچھ صحیح ہے، لیکن جنت میں میرے فضل و کرم اور رحمت کی وجہ سے جا‘‘۔ اس کی سمجھ میں بات نہ آئے گی اور وہ اس بات پر اَڑ جائے گا کہ میں تو اپنے عمل ہی کی وجہ سے جنت میں جاؤں گا۔ اس پر اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دے گا: ’’ذرا اس کو دوزخ کے قریب کردو‘‘۔ اب جو دوزخ کی تپش محسوس ہوگی، وہ العطش العطش پکار اٹھے گا۔ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اس کے سامنے پانی کا کٹورا پیش کرو۔ وہ کٹورے کی طرف ہاتھ بڑھائے گا تو کہا جائے گا کہ ’’اس پانی کی قیمت پانچ سو برس کی عبادت ہے، خرید کر پینا ہے تو خریدکر پی لے‘‘۔ چنانچہ وہ پانچ سو برس کی عبادت دے کر ایک کٹورا پانی پی لے گا، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اسے پھر شدید پیاس لگے گی اور وہ العطش العطش پکارنے لگا۔ پھر پانی کا کٹورا پیش کیا جائے گا، لیکن اب وہ قیمت ادا کرنے سے عاجز ہوگا۔ پوچھا جائے گا: ’’بتا جنت میں اب کیسے جائے گا؟ تیرے پاس تو اب کچھ بھی عمل نہیں ہے۔ دنیا میں جتنے کٹورے پانی پیتا رہا ہے، اس کا حساب دے۔ جتنے انار کھائے، ان کے ایک ایک دانے کا حساب دے‘‘۔ وہ عرض کرے گا: ’’یااللہ! میں صرف تیرے فضل و کرم کا محتاج ہوں، بے شک نجات تیرے فضل و کرم ہی سے ہوگی‘‘ اور پھر وہ اللہ کے فضل و کرم سے جنت میں جائے گا۔ یہاں سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ نجات تو بے شک اللہ کی رحمت سے ہوگی، لیکن کوئی عمل حصول رحمت کا سبب بن جائے گا، اس لئے عمل کرتے رہنا چاہئے۔ معلوم نہیں اللہ کی رحمت ہمارے کس عمل کو ہماری نجات کا سبب بنادے۔
غرور و تکبر صرف روپئے پیسے اور مال و زر کا ہی نہیں ہوتا، حسن کا بھی ہوتا ہے، جاہ و مرتبہ کا بھی ہوتا ہے، علم کا بھی ہوتا ہے، رنگ و نسل اور حسب و نسب کا بھی ہوتا ہے، عبادت کا بھی ہوتا ہے اور اسی اعمال صالحہ کا بھی ہوتا ہے کہ ہم بڑے نیک ہیں، پارسا ہیں، متقی ہیں، پرہیزگار ہیں، وغیرہ وغیرہ، لیکن دراصل ہمارے اعمال صالحہ کسی لائق ہیں نہیں، بس یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنی شان رحیمی کے صدقے ان اعمال کو قبول فرمالے گا، اس لئے اپنی عبادت اور اپنے اعمال صالحہ پر فخر و ناز نہیں کرنا چاہئے۔ بس اعمال صالحہ کرتے جاؤ اور دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالی ان کو قبول فرمالے، جس سے ہماری نجات ہو جائے، جو صرف اللہ کی رحمت ہی سے ہوگی۔ اللہ تعالی ہم سب کو فکر صحیح کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) (اقتباس)