اللہ میاں کا بینک

میاں محسن ایک دن اپنی امی سے بولے ۔ امی جان ! ہم نے تو اللہ میاں کے بینک میں اپنا حساب کھول لیا ہے ۔ آپ جو ہر ہفتے مجھے جیب خرچ دیتی ہیں ۔ اسی میں سے کچھ نہ کچھ بچاکر بینک میں جمع کردیتا ہوں ۔
امی جان یہ سُن کر مسکرادیں ، بولیں ، تو پھر یہ روپیہ تم کو ملے گا کب؟ ’’قیامت کے دن ایک ایک کے بدلے سات سات سو تک ملے گا ! کچھ سُنا آپ نے اور اگر اللہ نے چاہا تو اس کا بھی دونا ۔اوہو ! اتنا بہت اچھا یہ تو سود ہوا نا ؟ اور بیٹا سود لینا تو حرام ہے ۔ واہ امی جان آپس میں سود لینا حرام ہے اللہ میاں دیںتو اسے حرام کرنے والا کون ؟ اچھا یہ تو بتاؤ یہ بنک ہے کہاں ؟تم کس جگہ روپیہ جمع کرتے ہو ؟ امی جان ! ہمارے پڑوس میں جو ایک اپاہج آدمی رہتا ہے بس اُس کو آپ اللہ میاں کے بنک کا کلرک سمجھیں ۔ میں تو اُسے ہی دے آتا ہوں جو کچھ اُسے پہونچ گیا ۔ بس جانو بنک میں جمع ہوگیا ۔ محسن میاں کی باتیں سُن کر امی جان بہت خوش ہوئیں ۔ سوچنے لگیں کہ محسن نے کیا پتے کی بات کہی ہے ۔ سچ مُچ ہم جس غریب یا فقیر کو اللہ کیلئے کچھ دیتے ہیں اس پر کوئی احسان نہیں کرتے ہیں ، اسے تو اللہ میاں نے ایک ذریعہ بنادیا ہے ۔ ہمیں نیکی کا اجردینے کا…!
٭٭ ٭٭ ٭٭