اقوام متحدہ کی ذمہ داری

کس کے حوالے اب کروں موسم بہار کا
اب کوئی بھی نہیں ہے مرے اعتبار کا
اقوام متحدہ کی ذمہ داری
اقوام متحدہ کو عالمی سطح پر ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کا سخت ترین نوٹ لینے کا اختیار حاصل ہے مگر اس عالمی ادارہ کی کارکردگی اور پالیسیاں صرف ایک مخصوص گروپ کے تابع دکھائی دے رہی ہیں۔ ساری دنیا میں جہاں کہیں انسانیت سوز واقعات ہوتے ہیں تو ان کی مذمت کرتے ہوئے ان پر روک لگانے کیلئے اقوام متحدہ کو پالیسی ساز فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہیکہ آج ساری دنیا کے مسلمان مائنمار میں فوجی کارروائیوں اور بدھسٹ انتہاء پسندوں کے ظلم و زیادتیوں کا شکار مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے اور اقوام متحدہ کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کے باوجود اب تک کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اقوام متحدہ نے ازخود روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس نے رکھائین میں 1000 سے زائد روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام کی رپورٹ دی اور تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کی بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی خبر سے بھی وہ واقف ہے اس طرح کی تلخ اور صدمہ خیز واقعہ پر بھی اقوام متحدہ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے مائنمار حکومت اور فوج کو انتباہ دیا جاتا۔ تحدیدات اور دیگر پابندیوں جیسے اقدامات کرتے ہوئے سخت کارروائی کی جاتی۔ ساری دنیا کے مسلم ملکوں نے مائنمار کی صورتحال کو سنگین قرار دیا۔ تاہم اب تک اس سلسلہ میں ترکی نے ہی عملی اقدامات کا ثبوت دیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے ترکی حکومت کی جانب سے متاثرہ مسلم خاندانوں کیلئے مزید پناہ گزین کیمپس قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزین ادارہ کے ہائی کمیشن نے لاکھوں روہنگیائی پناہ گزینوں کے کیمپوں کے حوالے سے یہ دردناک رپورٹ بھی دی کہ ان کیمپوں میں مقیم افراد کی حالت تباہ کن ہے۔ یہ لوگ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں۔ کسی بھی مصیبت زدہ کو آسرا دینا ایک انسانی جذبہ کا بہترین عمل ہوتا ہے مگر پناہ گزین کیمپس قائم کرکے انہیں بے یارومددگار چھوڑا گیا ہے۔ ان کیمپوں کی حالت بتارہی ہے کہ یہاں حاملہ خواتین، زچہ مائیں، نومولود بچے بنیادی ضروریات و امداد سے محروم ہیں۔ بیماروں کیلئے طبی امداد نہیں مل رہی ہے۔ یہ بے بس انسان بے پناہ مایوسی، بھوک، افلاس کا شکار ہیں۔ ساری دنیا کی انسانیت کے لئے یہ واقعات خون کے آنسو رونے کے مترادف ہیں۔ مائنمار میں بدھ مت کے ماننے والوں نے روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف تعصب و امتیاز کے ساتھ ان کی زندگیوں کو تباہ کردیا ہے۔ ایک طویل تاریخ شاہد ہیکہ یہاں کے مسلمانوں کو غیرقانونی بنگلہ دیشی مہاجرین قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ان مسلمانوں کو مائنمار کی شہریت بھی نہیں دی گئی۔ مائنمار کی طرح ہندوستان میں بھی آسام، مغربی بنگال، تریپورہ میں مقیم مسلمانوں کو اسی خطوط پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن مائنمار کی حکومت اور بدھ مت کے ماننے والے کٹر پسندوں نے مسلمانوں کا صفایا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ مائنمار میں جس وقت مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات ہورہے ہیں اور ان پر ساری دنیا آہ و بکا کررہی ہے ایسے میں وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی کے دورہ مائنمار کے دوران ایک سیکولر ملک کے سربراہ کے طور پر انہوں نے مائنمار کی حکومت پر مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے پر زور نہیں دیا اور افسوسناک بات یہ ہیکہ مودی نے مائنمار میں ہورہے مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت بھی نہیں کی بلکہ مائنمار کی حکمراں آنگ سان سوچی سے ملاقات کے بعد برما کی حکومت کے رویہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مودی نے اپنے تجربات سے آنگ سان سوچی کو واقف کروایا ہوگا کیونکہ مودی سے ملاقات کے بعد ہی سوچی نے اپنے ملک میں مسلمانوں پر ظلم ہونے کی یکسر تردید کی۔ جھوٹ کا سہارا لے کر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔ مسلمانوں پر مظالم کو روکنے کے بجائے مائنمار حکومت اپنی غیر ذمہ داریوں کا مظاہرہ کررہی ہے۔ مسلم ممالک کو بھی اب مسلسل تماشہ بین رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلم ممالک کے پاس طاقت ہے مگر حوصلہ نہیں ہے۔ مسلم ممالک کو اپنی کوتاہیوں سے باہر نکل کر آنے کی ضرورت ہے ورنہ ظلم و زیادتیوں کے عادی اور شوقین طاقتیں ایک کے بعد دیگر مسلم دنیا کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوں گے اور اس تباہی کی ذمہ دار خود مسلم دنیا ہوگی۔ ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک ہر ریاست میں مسلمانوں نے بعد نماز جمعہ بڑے پیمانہ پر احتجاج کیا ہے۔ مساجد میں خصوصی دعائیں کی گئی ہیں۔ دعائے قنوت نازلہ بھی پڑھی گئی۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کے غم و صدمہ کو محسوس کیا جائے تو اقوام متحدہ اور دیگر حقوق انسانی تنظیموں کو فوری مداخلت کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ظلم بڑھتا جائے تو جگہ جگہ عدم استحکام کی کیفیت پیدا ہوگی اور کسی بھی ملک کیلئے عدم استحکام کی صورتحال مناسب نہیں ہوتی۔
راجناتھ سنگھ کا دورہ کشمیر کو موافق امن بنانا ضروری
مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کے دورہ جموں و کشمیر کے بارے میں وادی کے قائدین نے شک و شبہ کا اظہار کیا ہے۔ اس دورہ کو وادی کے اندر امن کی بحالی کیلئے کامیاب بنایا جائے تو یہ ایک مستحسن اقدام کہلائے گا لیکن کشمیری سیاسی قائدین نے اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہ قیاس کیا ہیکہ راجناتھ سنگھ کے دورہ سے وادی کی موجودہ دھماکو صورتحال مزید نازک ہونے کا اندیشہ ہے۔ وزیرداخلہ نے اپنے دورہ کے بارے میں یہ وضاحت ضرور کی ہیکہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ کشمیر جارہے ہیں۔ حکومت تمام مسائل کی یکسوئی کیلئے کوشاں ہے۔ حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کے حصہ کے طور پر وادی میں فی الفور امن بحال کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ راجناتھ سنگھ کے دورہ کے بارے میں نیشنل کانفرنس صدر رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے تلخ تبصرہ کیا ہے کہ ان کے دورہ سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ درحقیقت وادی کے عوام کے عرصہ حیات کو تنگ کرنے والی کارروائیوں کو فوری روکا نہیں گیا تو وادی میں امن کی بحالی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ فرقہ وارانہ ذہنیت کے ساتھ کسی بھی علاقہ کا دورہ کیا جائے تو اس کے بہتر نتائج نہیں نکلتے۔ مرکزی حکومت پر الزام ہیکہ وہ ایک طرف وادی کشمیر میں این آئی اے کی طرف سے علحدگی پسندوں اور تجارت پیشہ افراد کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے دوسری طرف عوام الناس پر طاقت کا استعمال کرکے انہیں ہراساں اور خوفزدہ کیا جارہا ہے۔ یہ حکمت عملی اور پالیسی فوری بدلنے کی ضرورت ہے۔