اقوام متحدہ نے مسائل حل نہیں بلکہ مسائل پیدا کئے

:     ٹـرمـپ پـھـر بـولے     :

اسرائیل کو 20 جنوری کا انتظار کرنے ٹرمپ کا اشارہ، اقوام متحدہ کا وجود محض تضیع اوقات اور پیسے کی بربادی

واشنگٹن ۔ 29 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کے نومنتخبہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر عالمی مجلس اقوام متحدہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مجلس کی کارکردگی توقعات کے عین مطابق نہیں ہے جبکہ مسائل کی یکسوئی کیلئے قائم کی گئی یہ مجلس مسائل میں اضافہ کررہی ہے۔ یاد رہیکہ ٹرمپ نے ایک ہی ہفتہ میں دوسری بار عالمی مجلس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایاہ ے اور یہ تنقید محض سلامتی کونسل کی جانب سے اسرائیل میں نوآبادیات کی تعمیر کی خدمت کرنے کے بعد بطور ردعمل کی گئی ہے۔ فلوریڈا میں کل اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے پاس صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ تاہم ان صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لایا جارہا ہے، جس سے ہماری توقعات پر پانی پھر گیا۔ ٹرمپ نے صحافیوں سے ہی پوچھا کہ آپ نے اقوام متحدہ کو کسی مسئلہ کا حل پیش کرتے کبھی دیکھا ہے؟ کیونکہ یہ مجلس مسائل پیدا کرنے والی مجلس ہے۔ یہ بات انہوں نے اخباری نمائندوں کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی، جہاں ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا امریکہ ان کی قیادت میں  اقوام متحدہ سے دستبردار ہوجائے گا؟ جاریہ ہفتہ کے اوائل میں بھی ٹرمپ نے اقوام متحدہ پر تنقیدی ٹوئیٹ تحریر کئے تھے۔ خصوصی طور پر مغربی کنارہ اور یروشلم میں اسرائیل کی جانب سے نئی بستیاں تعمیر کئے جانے کے خلاف سلامتی کونسل کے ذریعہ منظور کی گئی قرارداد کے بعد ٹرمپ چراغ پا ہوگئے تھے اور اپنے دل کی بھڑاس انہوں نے اقوام متحدہ پر مسلسل تنقیدیں کرتے ہوئے نکالی۔ انہوں نے یہ تک کہا کہ اقوام متحدہ محض ایک وقت گذاری کا کا مقام ہے۔

اگر اقوام متحدہ ہمارے مسائل حل کرتی ہے تو اس مجلس کا وجود قابل تعریف ہے ورنہ اس مجلس کا وجود سوائے تضیع اوقات اور پیسے کی بربادی کے کچھ نہیں۔ ہم اسرائیل کی توہین کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ایک زمانہ تھا کہ امریکہ کو اسرائیل کا بہترین دوست تصور کیا جاتا تھا لیکن شاید اب ایسا نہیں ہے (اوباما کے دورحکومت کے اختتام تک) خاتمہ کا آغاز دراصل ایران کے ساتھ ہوئے معاہدہ سے ہی ہوگیا ہے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو واضح اشارہ دے دیا ہیکہ وہ بے فکر رہے۔ 20 جنوری زیادہ دور نہیں ہے اور ایک مستحکم اسرائیل امریکہ کے ایجنڈہ میں شامل ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہیکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخاب کو اپوزیشن نے چیلنج کیا تھا۔ تاہم الیکٹورل کالج کے ذریعہ ان کے انتخاب پر مہرثبت کردینے کے بعد یوں تو کوئی شکوک و شبہات باقی نہیں رہے تاہم امریکہ کے ایک طبقہ کو آج بھی یہ ایقان ہیکہ ٹرمپ نے اپنی بے پناہ دولت کا سہارا لیکر انتخابی نتائج میں زبردست دھاندلی کی ہے ورنہ کیا بات ہیکہ ڈیموکریٹک صدارتی  امیدوار ہلاری کلنٹن جو پرائمریز کے دور سے ہی ٹرمپ پر سبقت بنائے ہوئے تھیں، لمحہ آخر میں ’’آؤٹ‘‘ ہوگئیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہیکہ انتخابات کے دوران صرف ایشیائی ممالک جیسے ہندوپاک میں ہی دھاندلیاں ہوتی ہیں۔ امریکہ بھی اب دھاندلی والے ملک میں ہی شامل ہوگیا ہے۔ بیالٹ پیپر سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعہ کی گئی رائے دہی میں دھاندلی ہوئی ہیں اور رائے دہی کے تناسب سے بھی چھیڑچھاڑ کی گئی ہے۔ ہوسکتا ہیکہ ایک وقت ایسا آئے کہ ٹرمپ (جو اناپ شناپ بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے) خود اپنی ہی کسی تقریر کے دوران انتخابی دھاندلیوں کا اعتراف کرلیں۔ فی الحال تو 20 جنوری 2017ء کا انتظار ہے۔