اقلیتوں کی گرفتاریاں ومرکزی حکومت

آشیانہ بھی بجلی نے پھونکا مرا
میں ہی آتش زنی کا بھی مجرم بنا
اقلیتوں کی گرفتاریاں ومرکزی حکومت
ملک بھر میں اقلیتی نوجوانوں اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں اور ایذا رسانی کے واقعات عام بات ہیں۔ کسی بھی مقدمہ یا کسی بھی معاملہ میں پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں اولین فرصت میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہوئے انہیں سنگین دفعات کے تحت جیلوں میں بند کردیتی ہیں۔ اس سے قبل ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے ۔ انہیں بے طرح اذیتیں دی جاتی ہیں اور انہیں ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ کئی مقدمات ایسے ہیں جن میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو پھنسایا گیا ہے اور بعد میں انہیں عدالتوں سے نجات مل گئی ہے ۔ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو برادری میں بے چینی اور ناراضگی کی لہر پیدا ہوجاتی ہے جبکہ دوسرا اور اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے خاطی کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں اور انہیں کسی مقدمہ کا سامنا تک نہیں کرنا پڑتا ۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ حیدرآباد میں تاریخی مکہ مسجد کا بم دھماکہ ہو کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے بم دھماکے ہوں۔ مالیگاوں بم دھماکے ہوں یا گوا میں ہونے والا دھماکہ ہو سبھی میں ہندو دہشت گردوں کے ملوث ہونے کا واضح ثبوت مل چکا ہے اور اس میں مقدمات بھی شروع ہوچکے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام واقعات میں اندرون چند منٹ پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں نے مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانا ہی اپنا فرض اولین سمجھا تھا ۔ پولیس کی جانب سے مسلم نوجوانوں کو حراست میں لیتے ہوئے انہیں اذیتیں دی گئیں ۔ پھر انتہائی سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے مہینوں بلکہ برسوں جیلوں کی ہوا کھانے پر مجبور کردیا گیا ۔ بعد میں کہیں جا کر یہ انکشاف ہوا کہ ان تمام واقعات میں ہندو دہشت گرد گروپس سے تعلق رکھنے والے ارکان ملوث ہیں۔ سنگھ پریوار سے راست یا بالواسطہ تعلق رکھنے والے ان افراد کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کے باوجود کچھ مقدمات میں ماخوذ کئے گئے مسلم نوجوانوں کو ضمانت تک نہیں مل سکی ہے ۔ تاہم مکہ مسجد بم دھماکہ کا مقدمہ ایک ایسی مثال ہے جو سارے ملک میں اختیار کی جانی چاہئے ۔ اس مقدمہ میں مسلم نوجوانوں کو عدالت نے با عزت بری کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے انہیں معاوضہ اور صداقتنامہ کردار بھی فراہم کیا ہے ۔ حالانکہ عدالت کی نظر میں یہ با عزت بری ہوگئے ہیں لیکن ان کی زندگیوں پر ان فرضی مقدمات کا جو اثر ہوا ہے اس سے کئوی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنی پڑی اور ان کے سماجی تعلقات بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔

اب مرکزی وزیر داخلہ مسٹر سشیل کمار شنڈے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر میں اقلیتوں کی گرفتاریوں کے تعلق سے سخت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستوں کو جلد ہی ایک مکتوب روانہ کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی ایک مذہب کے ماننے والے نوجوانوں کی نہیں بلکہ تمام اقلیتی برادریوں کی بات کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ کو یہ حقیقت قبول کرنی چاہئے کہ ہندوستان میں سوائے مسلمانوں کے کسی اور اقلیتی برادری کے نوجوانوں کو پولیس اور انٹلی جنس ایجنسیوں کی ہراسانی کا سامنا کرنا نہیں پڑا ہے ۔ ہر مقدمہ میں صرف مسلم نوجوان پھانسے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب مرکزی حکومت ان مقدمات کا جائزہ لینے کیلئے ایک نگران کار یا اسکریننگ کمیٹی بھی قائم کریگی جوجن افراد کے خلاف پوٹا کے تحت الزامات عائد کئے گئے ہیں ان کے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی فیصلہ کریگی ۔ وزیر داخلہ کو اس طرح کی بیان بازی کی بجائے عملی اقدامات کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اب تک جن نوجوانوں کو جھوٹے اور فرضی مقدمات میں پھانسا گیا ہے انہیں ان مقدمات سے نجات ملے ۔ ان کے خلاف مقدمات سے دستبرداری اختیار کی جائے اور جن پولیس عہدیداروں نے ان کے خلاف مقدمات دائر کئے تھے اور مقدمات کی تحقیقات کی تھی ان کے خلاف قانونی اور محکمہ جاتی کارروائی کویقینی بنایا جائے ۔ جب تک عہدیداروں میں جوابدہی کا احساس پیدا نہیں کیا جاتا اس وقت تک ان کی یہ لا پرواہی بلکہ تعصب کی روش جاری رہے گی ۔ ان کے رویہ میں کوئی تبدیلی آنے کی امید نہیں کی جاسکتی اور مرکز کی صرف بیان بازیاں تو اس تعلق سے کوئی موثر اور کارکرد رول ادا نہیں کرسکتیں۔

اتر پردیش میں بے شمار نوجوانوں کے خلاف فرضی مقدمات درج کئے گئے تھے ۔ سماجوادی پارٹی نے ان مقدمات سے دستبرداری کا وعدہ کیا تھا ۔ جب حکومت کی جانب سے مقدمات سے دستبرداری کی کوشش شروع کی گئی تو فرقہ پرست عناصر اور بیوروکریسی کی جانب سے اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ جتنی کوشش مقدمات سے دستبرداری کی کی جا رہی ہے اس سے زیادہ اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی جا رہی ہے ۔ یہ جو عمومی رجحان مسلم دشمنی کا بنا ہوا ہے اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ویسے گذشتہ سال ستمبر میں بھی وزیر داخلہ نے ریاستوں کو مکتوب روانہ کرکے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر کچھ مشورے دئے تھے ۔ اب انہیں احتیاط برتنے کی صلاح دی جا رہی ہے ۔ یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ حکومت کو جتنے فرضی مقدمات درج کئے گئے ہیں ان سے مکمل دستبرداری اختیار کرتے ہوئے اور ذمہ دار عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اپنی سنجیدگی کا ثبوت دینا چاہئے ۔