اقلیتوں کا تحفظ اسلام کا طرۂ امتیاز

اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس نے نہ صرف اقلیتوں کے تحفظ اور ان کی خوشحالی و ترقی کے اصول و قوانین مرتب کئے ہیں، بلکہ ان قوانین کی خلاف ورزی پر نہ صرف دنیا میں سزائیں مقرر کی ہیں، بلکہ آخرت میں بھی جوابدہ و ماخوذ ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اقلیتوں سے متعلق زریں ارشاد سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ نے فرمایا ’’سنو! جس کسی نے ذمی (جس غیر مسلم کو اسلامی ملک میں رہنے کی مشروط اجازت دی گئی ہو) پر ظلم کیا، یا اس کے ساتھ زیادتی کی، یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف کیا، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لی تو میں قیامت کے دن اس کا طرفدار ہوں گا‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الخراج)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اقلیتوں سے متعلق عدل و انصاف کے مساویانہ حقوق مدون فرمائے، بلکہ اس کو عملی طورپر جاری بھی فرمایا۔ چنانچہ بیہقی کی روایت ہے کہ ایک مسلمان نے کسی اہل کتاب کو قتل کردیا۔ یہ معاملہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں ان میں سب سے زیادہ حقدار ہوں، جنھوں نے اپنے ذمہ (عہد و پیمان) کو پورا کیا‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذمی اہل کتاب کے عوض اس مسلمان کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ ۸:۰۳)
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے پاس ایک مسلمان کو لایا گیا، جس نے ایک غیر مسلم کو قتل کیا تھا اور اس کا ثبوت موجود تھا۔ جس کی بناء پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قصاص کے بدلے اس مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دیا، مگر قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کر صلح کرلی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا ’’شاید ان لوگوں نے تم کو ڈرایا اور دھمکایا ہے؟‘‘۔ اس نے کہا ’’نہیں، میں خود راضی ہو گیا، تاکہ اس کے بیوی بچوں کے لئے کافی ہو جائے‘‘۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’جو ہماری غیر مسلم رعایا سے ہے، اس کا خون ہمارے خون کی طرح ہے اور اس کی دیت ہماری دیت کی طرح ہے‘‘۔ (دارقطنی)
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم شاگرد قاضی القضاۃ حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الخراج میں غیر مسلم (اقلیت) رعایا سے متعلق اسلامی احکام کو تفصیل سے قلمبند کیا ہے اور عہد رسالت و خلافت راشدہ میں تعزیرات، دیوانی قانون، معاملات اور حقوق میں مسلم اور غیر مسلم رعیت کے درمیان مساویانہ احکام کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ چنانچہ کتاب الخراج (صفحہ۸۷) میں اہل نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ارسال کردہ خط کا یہ حصہ درج ہے:
’’نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ کی پناہ اور محمد عربی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ ان کی جان، مذہب، زمین، دولت، حاضر و غائب، ان کی عبادت گاہوں اور طریقۂ عبادت پر حاصل ہے۔ کسی پادری کو اس کے منصب سے، کسی راہب کو رہبانیت سے اور کسی صاحب منزلت کو اس کے درجہ سے ہٹایا نہیں جائے گا۔ ان کی مملوکہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز پر ذمہ ہے‘‘۔
اسلامی نقطۂ نظر سے شراب حرام و ناپاک ہے اور خنزیر عین نجاست ہے، لیکن اہل کتاب کے نزدیک شراب اور خنزیر مباح و جائز ہیں۔ اسی بناء پر اگر کوئی مسلم غیر مسلم ذمی کی شراب کو ضائع کردے یا خنزیر کو ہلاک کردے تو مسلمان پر اس کی قیمت ادا کرنا لازم ہوگا۔ (درمختار، جلد۲، صفحہ۳۲۲)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک یہودی کو دیکھا، جو اندھا ہوچکا تھا تو آپ نے اس کی کفالت کے لئے بیت المال سے تاحیات وظیفہ مقرر کردیا اور اپنی سلطنت کے تمام گورنرس کو احکام جاری کئے کہ غیر مسلم رعایا کے مستحق اور غریب افراد کو بیت المال سے باقاعدہ وظیفہ مقرر کیا جائے۔
یہ اسلام کے چند اقلیت نواز پہلو تھے، جس کی بہت سی تفصیلات کتب حدیث اور فقہ میں موجود ہیں، جو ساری دنیا کے حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہیں کہ وہ اپنی اقلیت رعایا سے متعلق زبانی دعوے کی بجائے عملی طورپر اقدامات کریں اور ان کی جان و مال، عزت و آبرو، تعلیم و روزگار اور بنیادی ضروریات کی تکمیل کو یقینی بنائیں۔