اقلیتوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ کی وجہہ کیاہے۔

نئی دہلی۔ قومی پیدواری کونسل کی رپورٹ کے مطابق بنیادی سہولتوں کی کمی جیسے اسکولوں میں بیت الخلاء ‘ کلاس رومس جو گھر کے قریب ہیں وہاں پر اسکولس میں ٹیچرس کی مسلسل غیر حاضری ‘ والدین کی غربت یہ اصل وجوہات ہیں جو اقلیتی طبقے کے بچوں کی اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔

رپورٹ میں اٹھ ریاستوں کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں آسام ‘ بہار‘ ہریانہ ‘ جھارکھنڈ‘ مہارشٹرا‘ راجستھان ‘ اترپردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں جہاں پرسب سے زیادہ اقلیتی طبقے کے طلبہ اسکو ل چھوڑ رہے ہیں کیونکہ یہاں پر ریاست کی مخصوص وجہہ ہے۔

اقلیتی امور کی وزرات نے این پی سی کو اقلیتی طبقے کے بچوں کی تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کی وجوہات کی جانچ کرنے کے لئے کہاتھا ‘ اس جانچ میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر طبقات کو بھی شامل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی جس کا ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے انکشاف کیاہے۔

مذکورہ ابتدائی رپورٹ وزرات کو پیش کی جائے گی اور اس کے علاوہ سوشیل جسٹس پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کو بھی رپورٹ پیش کی جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق اٹھ ریاستو ں میں بنیادی سہولتوں کی نمایا ں کمی ہے ‘مناسب فاصلہ اور حدود میں درکار اسکول کی تعداد نہایت کم ہے‘ کلاس رومس کی کمی کے سبب بچے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں ‘

فرنیچر او رانفارسٹکچرکا فقدان ہے‘کلاس رومس میں پنکھے ندارد ہیں جبکہ لڑکے او رلڑکیوں کے لئے علیحدہ بیت الخلاء کا نظام ندارد ہے‘ نہ تو اسکولوں کی دیواریں اور نہ ہی میدان ‘ تعلیمی یافتہ ٹیچرس کا تقرر نہیں کیاگیا او رپڑھائی کے لئے کم تعلیمی یافتہ کنٹراکٹ ٹیچرس کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں اس کے علاوہ اسکولس میں لائبریری بھی ندارد ہے۔

رہائشی علاقے سے دودراز مقام پر اسکول قائم کئے گئے ہیں‘ ٹیچرس کی غیر حاضری اور والدین کی غربت کے بشمول دیگر عام وجوہات جس ریاستی حکومت کی ذمہ داری میں ہیں ڈراپ اؤٹ کی اہم وجہہ ہے۔

رپورٹ میں اقلیتی امور کی وزرات کی کوتاہی کو بھی نشانہ بنایاگیا ہے کہ مذکورہ وزرات نے اسکولوں کی حالت زار کے متعلق نہ تو کوئی نگران کار کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی اور نہ ہی اب تک اس کے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے لئے کوئی عہدیداروں کو روانہ کیاہے۔

حقائق پر نوٹ لیتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی نے وزرات کی بے حسی پر تاسف کا اظہار کرسکتا ہے۔کمیٹی کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کے اشتراک سے مذکورہ اسکولس چلائے جاتے ہیں۔

باوجوداسکے کمیٹی نے وزرات برائے اقلیتی امور نے اقلیتی بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے متعلق غیر سنجیدگی رویہ کو پیش کیا ہے۔ کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ طبقے کے بچوں کو تعلیم سے ہمکنار کرنے کی اولین ذمہ داری منسٹری پر عائد ہوتی ہے جو پوری طرح ناکام ہوگئی ہے۔

پارلیمانی کمیٹی نے وزرات سے سفارش کی ہے کہ وہ این پی سی کے ذریعہ حاصل رپورٹ کی مناسبت سے عہدیداروں کو روانہ کرے اور ڈراپ اؤٹ کے اسباب کے خلاف رپورٹ میں پیش کی گئی سفارشات کی بنا پر کاروائی کرے۔ہندوستان کی مجموعی آبادی کے انیس فیصد تناسب کے حامل اقلیتیں جس میں مسلمان‘ عیسائی‘ سکھ‘ بدھسٹ ‘ پارسی اور جین شامل ہیں کے بچوں کے تعلیمی معیاری میں بہتری کے متعلق اسٹڈی پر مشتمل یہ رپورٹ ہے