اقتدار چیلنج بھری ذمہ داری

اک حسیں دور کی بشارت دوں
یہ صدی خیر سے گذر جائے
اقتدار چیلنج بھری ذمہ داری
اقتدار پر فائز سیاستدانوں کے لئے یہ کام چیلنج سے کم نہیں ہوتا ہے کہ عوام کو یقین دلاسکیں کہ ان کی ترقی و بہبود کے لئے وہ کس قدر سخت محنت کرتے ہیں۔ اپنے رائے دہندوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے حد سے زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن رائے دہندوں کے پاس صبر ہی نہیں ہوتا کہ وہ حکمراں قائدین کو برداشت کرسکیں۔ اس لئے وہ حکومت کی شان میں نشر کی جانے والی بوریت والی خبروں، تبصروں اور پالیسیوں کے بارے میں اعلانات کی سماعت سے گریز کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے جس حکومت میں رشوت ستانی، بدعنوانی اور اسکامس و اسکینڈلس ہوں اور ان کے بارے میں عوام کو واقف کروانے والی خبروں کے بجائے صرف حکومت کی تعریف والی خبریں ہی بار بار دہرائی جائیں تو عوام بدظن ہوجاتے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد مودی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔ اب اسے لوک سبھا انتخابات کی تیاری کرنی ہے تو ہر جگہ اور ہر جلسہ میں رام مندر کی تعمیر کا شور برپا کیا جارہا ہے۔ گزشتہ چار سال تک رام مندر کو پس پشت ڈالے رکھنے والے فرقہ پرستوں کو اچانک بھگوان کی یاد آنے لگی ہے تو عوام اس طرح کی اچانک یاد آنے والی باتوں کا نوٹ لینے لگے ہیں۔ آج کے سوشیل میڈیا دور میں جہاں شہری اپنے شعور کا بہترین ثبوت دے رہے ہیں ان کے سامنے جھوٹ کو پیش کرنے میں حد سے زیادہ تجاوز کیا جائے تو اس کا ردعمل بھی شدید ہوگا۔ عوام نے ماضی میں یہ بھی دیکھا ہے کہ رام مندر کے لئے ایجی ٹیشن چلاتے ہوئے اینٹ پتھر لاتے ہوئے تحریک کے لئے عوام میں جوش پیدا کردیا گیا تھا اور عوام اینٹوں پر بھی ’’شری رام‘‘ تحریر کرکے ان اینٹوں کی پوجا کرتے ہوئے انھیں ایودھیا لے آئے تھے۔ بعد کے برسوں میں رام مندر کی تحریک پس پشت ڈال کر دیگر موضوعات جیسے ہجومی تشدد، بے قصور مسلمانوں کی گرفتاریاں، دہشت گردی اور دیگر عنوانات سے عوام کے ذہنوں کو منتشر کردیا گیا۔ اس کے بعد نوٹ بندی کے ذریعہ معیشت پر کاری ضرب لگائی گئی اور جب نوٹ بندی کی پالیسی اپنے منفی اثرات دکھانے لگی تو عوام کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے انھیں مذہبی جذبات کی طرف گھسیٹ کر لانے کے لئے رام مندر کا مسئلہ چھیڑا گیا ہے۔ کالا دھن لانے میں ناکام مودی حکومت نے سوچھ بھارت مہم بھی چلائی تھی۔ شہروں کو صاف ستھرا رکھنے کی مہم بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی تو مودی کی ہیرو والی شبیہہبگڑنے لگی۔ یہ دیکھ کر بی جے پی قائدین نے اچانک مودی کو رام کے اوتار سے منسوب کردیا تاکہ رائے دہندوں کے سامنے مودی کو ’’پوتر‘‘ شخص کے طور پر نمایاں کیا جائے۔ قطع نظر اس کے کہ مودی حکومت نے اپنے بلند بانگ دعوؤں کے برعکس معاشی مشکلات سے نمٹنے کی کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہندوستانیوں کے لئے یہی دُکھ کی بات ہے کہ یہ حکومت ان کی توقعات کو پورا نہیں کرسکی۔ سی بی آئی، آر بی آئی اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حکومت نے ان اداروں کی افادیت گھٹا دی ہے۔ قومی قیادت اور حکمرانی کے فرائض انجام دینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ جب تک اپوزیشن میں تھے حکومت پر الزام تراشی اور دشنام طرازی کرنا سب سے آسان کام ہوتا تھا۔ اب خود بی جے پی اقتدار پر آکر چار سال سے زیادہ ہوچکا ہے، اپنے وعدوں کے اصل امتحان میں ناکام ہوچکی ہے۔ کسی لیڈر کی دیانتداری اور پاکبازی کے سارے دعوؤں کی حقیقت تب ہی کھل کر سامنے آتی ہے جب اسے اقتدار و اختیار کے منصب پر فائز کردیا جائے۔ عوام نے دیکھ لیاکہ گجرات ماڈل کا دعویٰ کرنے والی قیادت نے آج ہندوستان کو کس سطح پر لاکر کھڑا کیا ہے۔ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے نوٹ بندی کے مسئلہ پر حکومت کی ان تمام خرابیوں کی جانب نشاندہی کی ہے۔ اگر عوام اپنے سابق وزیراعظم اور ماہر معاشیات کی باتوں پر غور کریں تو اندازہ ہوجائے گا کہ مودی حکومت نے ملک کی معیشت کی کیا درگت بنادی ہے۔
بڑے شہروں میں فضائی آلودگی سنگین مسئلہ
ہندوستان کی آبادی میں اضافہ کے ساتھ بڑے شہروں میں فضائی آلودگی انسانی صحت کے لئے مضر ہوتے جارہی ہے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حالیہ دیپاولی تہوار کے دوران فضائی آلودگی مزید ابتر ہوگئی۔ کئی شہری زخمی بھی ہوگئے۔ سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے باوجود پٹاخوں کا استعمال کرتے ہوئے فضاء کو آلودہ بنانے میں شہریوں نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ خاص کر دارالحکومت دہلی میں جہاں پہلے ہی سے عوام فضائی آلودگی سے شدید متاثر ہیں، دیپاولی کے پٹاخوں سے یہ آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ دہلی کے اطراف و اکناف کی ریاستوں میں بھی پٹاخے چھوڑنے سے نئی دہلی کی فضاء مزید آلودہ ہوگئی۔ یہ ایک نازک مسئلہ ہے۔ ہر سال دیوالی کے موقع پر پٹاخوں کا استعمال دہلی کے بشمول کئی شہروں کی فضائی آلودگی کو خطرناک بناتا ہے۔ حکام نے پٹاخوں کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا ماضی میں قدم اُٹھایا تھا مگر یہ کامیاب نہ ہوسکا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس سال دیوالی کے موقع پر صرف دو گھنٹے کے لئے آتشبازی کی مشروط اجازت دی تھی۔ عدالت نے صرف ان پٹاخوں کو جلانے کی اجازت دی تھی جس سے فضائی آلودگی نہ پھیلے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ پٹاخوں کی فروخت بھی زیادہ ہوئی اور پٹاخے بھی اندھا دھند طریقہ سے چھوڑے گئے۔ دیوالی کے بعد مختلف شہروں میں فضاء میں آلودگی کی سب سے بلند ترین سطح ریکارڈ کی گئی ہے کہ صحت اور ماحولیات کو اس سنگین مسئلہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ عوام بھی جس فضاء میں سانس لے رہے ہیں اسے آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے احتیاطی اقدام کریں تو ایک بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔