افغانستان کے پارلیمانی انتخابات

جمہوریت طرز حکومت ہے کہ جس میں
انساں کو گِنا کرتے ہیں تولہ نہیں کرتے
افغانستان کے پارلیمانی انتخابات
افغانستان میں پارلیمانی انتخابات 3 سال کی تاخیر سے منعقد ہوئے لیکن تشدد ، خون خرابہ ، دھماکے اور حملوں کے واقعات کے درمیان افغان رائے دہندوں نے طالبان کی دھمکیوں کو نظر انداز کر کے پولنگ بوتھس تک پہونچنے کا جرات مندانہ مظاہرہ کیا ۔ یہ انتخابات جنگ سے متاثرہ افغانستان کے شہریوں کے لیے بہتر مستقبل کے ضامن ثابت ہوں گے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ جگہ جگہ خود کش دھماکوں نے سینکڑوں رائے دہندوں کو ہلاک کیا ہے ۔ اس کے باوجود افغانستان کے عوام کے حوصلہ کی ستائش کی جارہی ہے کہ انہوں نے اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ طالبان کی جانب سے 300 سے زائد حملے کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ افغان عوام کو اس طرح کے فرضی انتخابات کے ذریعہ ان پر بیرونی ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی حکومت مسلط کردی جائے ۔ طالبان اقتدار کی بیدخلی کے بعد 2001 سے اب تک صرف 3 مرتبہ پارلیمانی انتخابات ہوئے ہیں ۔ ہر مرتبہ طالبان نے انتخابات کو روکنے کی کوشش کی ۔ اقوام متحدہ اسٹنس مشن کے کارکنوں نے افغانستان کو ایک منظم حکومت فراہم کرنے کی کوشش کے حصہ کے طور پر جمہوری عمل پر زور دیا ہے ۔ ان پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا اعلان 10 نومبر کو کیا جائے گا ۔ اس وقت تک افغانستان میں قیام امن کو یقینی بنانے کی ذمہ داری مقامی نظم و نسق اور بیرونی ایجنسیوں کی ہے ۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے گذشتہ کئی برسوں سے کوششیں ہورہی ہیں لیکن امن کی صورتحال بحال کرنے میں اب تک خاص کامیابی نہیں مل سکی ۔ پارلیمانی انتخابات کے لیے رائے دہی کے دوران صوبہ قندھار میں فائرنگ کے بھی واقعات ہوئے جس میں صوبائی پولیس کے سربراہ عبدالرزاق خفیہ ایجنسی کے مقامی عہدیدار عبد المومن اور ایک فوٹو گرافر ہلاک ہوئے ۔ اس طرح افغانستان کی سرزمین کو لہولہان کرتے آرہے واقعات کو روکنے میں ناکام فوج ، پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو چاہئے کہ وہ سیکوریٹی بندوبست کو یقینی بنائیں ۔ افغانستان میں امن کو اس لیے ضروری سمجھا جارہا ہے کہ اس خطہ کا امن تمام علاقوں کے لیے امن کا باعث ہوگا ۔ طالبان کو اپنے ملک پر کسی بیرونی طاقتوں کی اجارہ داری پر اعتراض ہے وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان میں سوپرپاور مزاحمت کی حامل فوج موجود رہے ۔ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے طالبان نے امریکہ کے بالادستی والے طرز عمل کو کل بھی قبول نہیں کیا تھا اور آج بھی وہ قبول کرنے تیار نہیں ہیں ۔ افغانستان کو تباہ کر کے اپنی ناکامیوں کو پوشیدہ رکھنے والی بیرونی طاقتوں نے اس خطہ میں استحکام نہیں لایا ۔ جب تک افغانستان میں استحکام نہیں لایا جاتا صورتحال اسی طرح نازک بنی رہے گی ۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی طاقت تو صرف عوام کی ہے لیکن عوام کو ایک پرامن زندگی فراہم کیے بغیر فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے تو یہ فیصلہ غیر مستحکم اور مستقبل کے لیے تاریک نتائج کا آئینہ ہوگا ۔ شورش پسندی کے ماحول میں عوام کو پولنگ بوتھس تک لانے کی کوشش کرنے والوں نے عوام کے تحفظ کے لیے موثر انتظامات نہیں کئے ۔ لاکھوں رائے دہندوں کو پولنگ بوتھس پر سیکوریٹی فراہم کرنے کی ضرورت تھی ۔ افغانستان کی صورتحال تبدیل کرنے کا ہر امیدوار متمنی نظر آتاہے لیکن یہ تبدیلی اس وقت ہی دیکھی جائے گی جب عوام کو پرسکون زندگی گذارنے کا موقع ملے ۔ خاتون امیدواروں نے بھی انتخابات میں حصہ لیا ہے ۔ انہوں نے طالبان کے خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ملک میں ایک بڑی تبدیلی لانے کا عزم کرلیا ہے لیکن جس ملک میں عام زندگی جوکھم بھری اور چیالنجس سے بھرپور ہو سڑک پر چلنا بھی محال ہوجائے تو ایک محفوظ اور پر سکون معاشرہ کا وجود محض ایک خواب ہی ہوگا ۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود اگر افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا عمل پورا ہوتا ہے اور نتائج سامنے آتے ہیں تو ایک امید بھی پیدا ہوتی ہے کہ اس مرتبہ افغان عوام کو پہلے سے بہتر ماحول ملے گا ۔۔