اعلی حضرت امام احمد رضا خاں بریلی ؒ کے افکار کو سمجھنے کی ضرورت : پروفیسر اختر الواسع 

ماہ اکٹوبر میں ملت اسلامیہ کی عظیم و عبقری شخصیت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی ؒ کی صد سالہ یوم وفات ہے ۔ بے شک اعلی حضرت کی علمی ، اصلاحی او رفکری جد جہد کا دائرہ بے حد وسیع ہے ۔ انیسویں صدی میں جن نفوس قدسیہ نے اپنے علم وتفقہ ، فکروفن او راصلاحی کارناموں سے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی ان میں اعلی حضرت علامہ احمدرضا خاں ؒ کا مقام و مرتبہ کے بھی امام تھے ۔

علامہ فاضل بریلوی نے فقہ، فتاوی، تفسیر وکلام و سیر وتاریخ کے دامن میں اپنے علم و فضل کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں وہ آج بھی چمک رہے ہیں۔آج پوری دنیا میں اسلام دشمن طاقتیں متحد ہوچکی ہیں او راسلام ومسلمانوں کے خلاف صف آرائی جاری ہے ۔ ایسے میں مسلمانوں کی مختلف مسالک و مکاتب فکر میں تقسیم ہونے کے بجائے کلمہ کی بنیاد پر ایسے بے نظیر اتحادی کا نمونہ پیش کرنا چاہئے تاکہ باطل طاقتیں پاش پاش ہوجائیں ۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خاں کی پیدائش ۱۴؍ جون ۱۸۵۶ء میں بریلی کے جسولی ہوئی تھی ۔ وہ مشہور صوفی ، فلسفی ، قرآن مجید اورحدیث کے مفسر ، عالم دین، مصنف اور نعت گو شاعر تھے۔ ان کے والد ماجد مولانا نقی علی خاں بھی مشہور عالم دین گذرے ۔ علامہ فاضل بریلوی شاعری میں ید طولہ رکھتے تھے ۔

انہوں نے اردو اور فارسی زبان میں شاعری بھی کی ۔ان میں ایک مشہور ’’ حدائق بخشش‘‘ ہے۔ ان کی اہم تصانیف ’’ فتاویٰ رضویہ ‘‘ہے ۔ انہوں نے 1904ء میں بریلی میں دارالعلوم منظر اسلام نامی ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی ۔ ان کی وفات ۲۸؍ اکٹوبر ۱۹۲۱ء کوہوئی اور بریلی میں ہی مدفون ہیں ۔ حکومت ہند نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا ۔ علامہ فاضل بریلوی ؒ کے حوالہ سے سماج میں کچھ ایسی باتیں منسوب ہوگئی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔چنانچہ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ غیر محقق باتوں پر مسلکی اختلافات رونما ہوتے رہتے ہیں جو غیر مناسب ہے ۔ چنانچہ میں ا س موقع پر ایک بار پھر ملت اسلامیہ کے ہر فرد سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر شخصیات کوپرکھنے کی کوشش کریں ، یہی ہمارے لئے مثبت اور مناسب راہ ہے ۔