اعداد و شمار کا اُلٹ پھیر ‘انتخابات پر توجہ

اور تقدیر میں کیا جانئے کیا رکھا ہے
آپ نے مجھ کو بھی دیوانہ بنا رکھا ہے

اعداد و شمار کا اُلٹ پھیر ‘انتخابات پر توجہ
مودی حکومت نے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل اپناعبوری بجٹ پارلیمنٹ میںپیش کردیا ہے ۔ اس بجٹ کے ذریعہ مودی حکومت نے سماج کے بڑے طبقات کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس نے جہاں کسانوں کو سالانہ چھ ہزار روپئے کی نقد امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے وہیں اس نے انکم ٹیکس استثنی کی حد کو دوگنی کرتے ہوئے پانچ لاکھ روپئے کردیا ہے ۔ پانچ لاکھ روپئے سالانہ آمدنی تک کوئی انکم ٹیکس عائد نہیں کیا جائیگا ۔ اس کے علاوہ غیر منظم شعبہ کے ورکرس کیلئے تین ہزار روپئے ماہانہ پنشن کی اسکیم شروع کرنے کا بھی حکومت نے اعلان کیا ہے ۔ یہ سارے اعلانات کسانوں ‘ غیر منظم شعبہ کے ورکرس اور مڈل کلاس طبقہ کو خوش کرنے کی کوشش ہیں۔ ان کے ذریعہ حکومت کروڑہا افارد کی تائید حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اسے امید ہے کہ کانگریس کی جانب سے جو ہر غریب خاندان کو اقل ترین آمدنی گیارنٹی کا جو اعلان کیا گیا ہے اس کا توڑ ان اقدامات کے ذریعہ ممکن ہوسکتا ہے ۔ ویسے تو حکومت کیلئے صرف علی الحساب بجٹ پیش کرنا تھا اور کام چلانے پر توجہ دینا تھا لیکن مودی حکومت ہر روایت سے انحراف میں یقین رکھتی ہے اور اس نے عبوری بجٹ کے نام پر مکمل بجٹ پیش کردیا اور انتخابات کے وقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سماج کے اہم طبقات کیلئے مراعات کا اعلان کردیا ہے ۔ حکومت یہ دعوی بھی کر رہی ہے کہ اس نے گذشتہ پانچ سال میں معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے مثالی اقدامات کئے ہیں اور آئندہ پانچ سال میں وہ ملک کی معیشت کو دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔حکومت نے حالانکہ غیر منظم شعبہ کے ورکرس کیلئے پنشن اسکیم پیش کی ہے اور اس پر واہ واہی حاصل کی جا رہی ہے لیکن ہر ورکر کیلئے ماہانہ 100 روپئے کی ادائیگی کا لزوم عائد کردیا گیا ہے اور پنشن کی ادائیگی بھی 60 سال عمر کی تکمیل کے بعد ہوگی ۔ اس طرح حکومت نے ادائیگی سے پہلے وصولی کا کام شروع کرنے کی اسکیم رائج کی ہے اورا س کے ذریعہ ایک بار پھر ان ورکرس کو الجھاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے پر ہی وزیر فینانس نے توجہ مرکوز کی ہے ۔
جہاں تک انکم ٹیکس استثنی کی حد میں اضافہ کی بات ہے مسلسل یہ مطالبات کئے جا رہے تھے کہ اس کو بڑھایا جائے لیکن حکومت نے ایسے مطالبات کو نظر انداز کردیا تھا ۔ خاص طور پر حالیہ معلنہ 10 فیصد تحفظات میں غربت کی شرح کو 8 لاکھ روپئے مقرر کیا گیا تھا اس کے بعد تو انکم ٹیکس استثنی کی حد میں اضافہ لازما کرنا تھا ۔ اب حکومت اس کو تنخواہ یافتہ طبقہ کی فلاح و بہبود کیلئے اقدام کا نام دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریگی ۔ حکومت کی سنجیدگی پر سوال اسی حقیقت سے اٹھنے لگتے ہیں کہ حکومت نے یہ کام گذشتہ چار مکمل بجٹ میں نہیں کیا تھا اور اب محض انتخابات کو دیکھتے ہوئے اس نے عبوری بجٹ میں یہ تجویز پیش کردی ہے ۔ جہاں تک کسانوں کو سالانہ چھ ہزار روپئے کی نقد ادائیگی کے اعلان کا سوال ہے یہ بھی محض دکھاوا یا خون لگاکر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش ہے ۔ سالانہ چھ ہزار روپئے کی رقم آج کے دور میں کوئی معنی نہیں رکھتی اور یومیہ محض 17 روپئے بنتے ہیں۔ کسانوں کیلئے اس معمولی امداد کے ذریعہ ان کی مدد نہیں بلکہ ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ اعلان بھی محض اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ تین ریاستوں میں کانگریس حکومتوں کی جانب سے زرعی قرض معاف کئے جانے کے بعد ملک بھر کے کسان بی جے پی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی ناراضگی کو دور کرنے محض معمولی سی امداد کا اعلان کیا گیا ہے اور وہ بھی انتخابی فائدہ حاصل کرنے ۔
حکومت کا یہ دعوی ہے کہ اس نے صرف شروعات کی ہے اور کئی بڑے اعلانات ابھی باقی ہیں۔ یہ عوام کے سامنے ایک اور جملہ ہی ہے ۔ حکومت کے پاس پانچ سال کی معیاد تھی جس دوران وہ ایسے اعلانات کرسکتی تھی لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ جی ایس ٹی ‘ مہنگائی اور نوٹ بندی سے پہلے تو عوام کو لوٹا گیا ۔ پٹرول قیمتوں کے ذریعہ جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا اور اب اسی ڈاکہ میں چند سکے اچھال کر عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حکومت نے بجٹ میں یہ واضح نہیں کیا کہ اپنی معیاد کے دوران اس نے کتنے روزگار فراہم کئے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح پر بھی حکومت نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ جو صنعتیں اور کارخانے بند ہوئے ہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے اور ملازمتوں میں کمی پر کچھ کہا گیا صرف اعداد و شمار کے الٹ پھیر سے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔