اشاعتِ قرآن اور حفاظتِ قرآن

عہد رسالت میں بعض ایسے لوگوں نے جو قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے اور دور دراز علاقوں میں رہتے تھے، یہ معذرت کی کہ آپﷺ قریش کے لب و لہجہ میں قرآن پاک کی تلاوت فرماتے ہیں، جب کہ ہماری زبان اس سے کچھ مختلف ہے، یعنی ہم اس لب و لہجہ میں تلاوت نہیں کرسکتے۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دے دی تھی کہ تم اپنے لب و لہجہ میں اس کی تلاوت کرسکتے ہو۔ چنانچہ قرآن کی تلاوت یہ لوگ اپنی قراء ت میں کرنے لگے۔ انھیں میں سے حفاظ دیگر شہروں میں پھیل کر قرآن پاک کی تعلیم بھی دیتے رہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں آرمینیا اور آذربائیجان سے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ واپس آئے اور حضرت عثمان غنی کو بتایا کہ دور دراز علاقوں میں قراء توں کے اختلاف کی وجہ سے لوگ اپنی قراء ت کو صحیح اور دوسروں کی قراء ت کو غلط سمجھنے لگے ہیں، جو ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ قبل اس کے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم، یہود و نصاریٰ کی طرح اپنی کتاب میں اختلاف کرے، آپ اس کا تدارک کیجئے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کی تحریک پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ کے پاس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد کا جو مصحف ہے، عاریتاً ہمارے پاس بھیج دیجئے، ہم اس کی نقل کراکے آپ کو واپس کردیں گے۔ چنانچہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وہ مصحف روانہ کیا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت زید بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت سعید بن العاص اور حضرت عبد الرحمن بن حارث رضی اللہ تعالی عنہم کو اس مصحف کی نقلیں تیار کرنے پر مامور کیا۔ ان حضرات نے اس کی کئی نقلیں تیار کیں۔ نقلوں کی تیاری کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ان کا مصحف واپس کردیا گیا اور نقل شدہ مصاحف میں سے ہر صوبہ کو ایک ایک نقل روانہ کردی گئی اور حکم دیا گیا کہ اس مصحف کے علاوہ جو صحیفے ہیں، وہ تلف کردیئے جائیں۔ یہ کام سنہ ۲۵ھ میں انجام پایا۔ اس طرح یہ مصاحف کوفہ، بصرہ، دمشق اور مکہ مکرمہ بھیجے گئے۔ ایک نسخہ خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے لئے رکھ لیا، جس کا نام ’’مصحف امام‘‘ تھا اور یہی وہ نسخہ ہے، جو ترکی کے عجائب گھر میں آج بھی من و عن محفوظ ہے۔ صوبوں کو بھیجے جانے والے نسخے جامع مساجد میں رکھے گئے تھے، جن کو دیکھ کر قاری پڑھتے تھے اور حفاظ ان ہی مصاحف سے حفظ کرتے تھے۔ اس طرح قرآن کریم کا ایک ایک لفظ اور اس کا قریشی تلفظ تک محفوظ ہو گیا۔
آسمانی کتابوں میں یہ امتیاز بھی قرآن کریم ہی کو حاصل ہے کہ یہ کتاب جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، من و عن لفظاً لفظاً حرفاً حرفاً بغیر کسی تبدل و تغیر اور تحریف و تقسیم یا ترمیم و تنسیخ کے بالکل اصلی حالت میں آج بھی موجود ہے، جب کہ اس سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں ایک بھی ایسی نہیں جو اپنی اصلی حالت میں باقی ہو، کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے لے رکھی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’بے شک ہم نے الذکر (قرآن) کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔ (سورۃ الحجر۔۹)
حفظ بھی قرآن کریم کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔ آج دنیا میں جتنے حافظ قرآن ہیں، گزشتہ آسمانی کتابوں کے اتنے نسخے نہ ہوں گے۔ چودہ سو سال سے عالم اسلام کے ایک ایک محلے اور ایک ایک بستی میں مسجد ہے اور ہر مسجد کے ساتھ عموماً ایک مکتب ضرور ہوتا ہے، جہاں قرآن پاک کی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے، ناظرہ بھی اور حفظ بھی۔ نماز پنجگانہ کی تین جہری نمازوں میں قرآن پاک کی قراء ت سماعت ہوتی رہتی ہے۔ سال میں ایک مرتبہ پورا مہینہ تراویح میں قرآن پڑھنے اور سننے کا ایسا اہتمام کہ ایک امام ہے تو اس کے ساتھ ایک حافظ قرآن ’’سامع‘‘ بھی ضرور ہے۔ پھر صحت کا یہ جتن کہ اگر امام اعراب بھی غلط پڑھے تو فوراً ٹوک دیا جاتا ہے۔ ان باتوں کے علاوہ قرآن خوانی کی محفلیں مسلم معاشرہ کا ایک جز بن چکی ہیں۔ یہ ساری باتیں حفاظت قرآن کی منہ بولتی تصویریں ہیں، جنھیں دیکھنے کے بعد دنیا کا کون شخص قرآن پاک کی محفوظیت میں شک کرسکتا ہے۔ الغرض یہ وہ کتاب ہے، جو شریعت کا ماخذ اول ہے، ہر معیار سے اعلی اور ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
اسی طرح شریعت کا ماخذ دوم سنت ہے۔ سنت کے لغوی معنی طریقے اور راستے کے ہیں، خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ چنانچہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ ’’جس نے کوئی اچھی سنت قائم کی، اسے خود اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور قیامت تک اس سنت کی پیروی کرنے والے کے عمل کا بھی‘‘ (مسلم) لیکن عرف میں لفظ سنت سے مراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ثابت شدہ اور معلوم طریقہ ہے، جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار بالالتزام عمل کیا یا جس کے آپﷺ عام طورپر پابند رہے۔ حدیث کے لغوی معنی بات کے ہیں، خواہ وہ کوئی بات ہو، لیکن اصطلاح میں اس سے مراد قول رسول، فعل رسول اور تقریر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
ہر وہ بات ’’قول رسول‘‘ ہے، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمائی۔ اسی طرح ہر وہ کام ’’فعل رسول‘‘ ہے، جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ جب کہ ایک خاص اصطلاح ’’تقریر رسول‘‘ ہے، جس سے مراد وہ کام ہے، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا گیا اور آپﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا اور ہر وہ بات جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہی تھی، لیکن آپﷺ نے ٹوکا نہیں۔ یہ تینوں امور حدیث میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے وہ سارے بیانات بھی حدیث ہیں، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور سیرت کے بارے میں ہیں۔
حدیث و سنت کی مندرجہ بالا تعریفات سے واضح ہو جاتا ہے کہ سنت صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اعمال تک محدود ہے، جب کہ حدیث میں اقوال، اعمال اور احوال سب ہی کچھ شامل ہیں۔ اس طرح سنت کا دائرہ محدود ہے اور حدیث کا وسیع، لیکن عرف میں ان دونوں کو ایک دوسرے کا مترادف سمجھا جاتا ہے اور حدیث و سنت کا مفہوم ایک ہی لیا جاتا ہے۔ ماخذ شریعت ہونے میں دونوں ہی شامل ہیں، اس لئے زیر بحث موضوع میں دونوں کو مترادف سمجھا جائے۔