اسکولوں میں تشدد

ملک کے مختلف حصوں میں اسکولوں، گھریلو ٹیوشن یا ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنس میں بچوں پر ہونے والی زیادتیوں، مار پیٹ اور اساتذہ کی وحشیانہ کارروائیوں کے واقعات نے افسوسناک کیفیت پیدا کردی ہے۔ معاشرہ کا متفکر طبقہ اس غور و خوض میں مصروف ہے کہ اساتذہ کو ان کی ذمہ داریوں کے لئے جوابدہ کس طرح بنایا جائے۔ حال ہی میں آندھراپردیش کے ضلع مشرقی گوداوری میں کاکناڈا کے ایک اسکول پرنسپل نے نابینا طالب علم کو بے دردی سے زدوکوب کیا۔ اس واقعہ کے تعاقب میں کولکتہ کی ایک خانگی ٹیوٹر کو اپنے 3 سالہ شاگرد کو بیدردی سے زدوکوب کرتے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرہ میں بتایا گیا ہے۔ بچوں پر ظلم و زیادتیاں یا تنبیہ کے طور پر انھیں سزا دینے کے طریقہ پر ماہرین تعلیم نے اساتذہ کو ایک ایسا نفسیاتی طریقہ کار اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے جس کی مدد سے طلباء میں ڈسپلن کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں مولوی صاحب کی چھڑی کے ڈر سے طالب علم اپنا سبق یاد کرتے تھے۔ اس چھڑی کی مار طالب علم کے ذہن کو تیز کرنے کا نسخہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر اس چھڑی کا استعمال جب طالب علم کو ہونہار اور ذہین بنانے کے بجائے اس کو مزید سخت گیر یا ضدی بنانے کا باعث بن جائے تو اساتذہ کو دوسرا نرمی کا راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے اور یہ نرمی کا راستہ بچے کی ذہنی کیفیت اور اس کے مزاج کو مدنظر رکھ کر نفسیاتی طرز کا ہونا چاہئے۔ ایک ضدی یا ڈسپلن شکن طالب علم کو سزا دینے کا آخری حربہ چھڑی کا بے تحاشہ استعمال ہے تو پھر اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ فی زمانہ بچوں کے لئے ایسے ماحول کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے

جس میں طالب علم آسانی سے درس حاصل کرسکے اور کچھ سیکھ سکے۔ اکثر ایسے اساتذہ (مرد / خاتون) اپنے شاگردوں پر بلاوجہ غصہ اُتارتے ہیں۔ اپنی ذاتی پریشانیوں یا گھریلو اُلجھنوں کا ان معصوم بچوں کو شکار بنایا جاتا ہے۔ کولکتہ میں خانگی ٹیوٹر نے ایک ننھے بچے کو اتنی شدت سے پیٹا کچھ دیر کے لئے اوسان خطا ہوگئے۔ راجمندری میں بھی پرنسپل کی جانب سے نابینا طالب علم کو شدید مارپیٹ کے واقعہ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔ جب سے یہ واقعہ منظر عام پر آیا تو حکومت کے کان کھڑے ہوگئے۔ آندھراپردیش کے ڈپٹی چیف منسٹر این چتا راجپا نے پرنسپل اور اسکول کرسپانڈنٹ کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس واقعہ کی جامع تحقیقات کروائی جائیں گی۔ لیکن اس طرح کے انکوائری والے عمل اور رپورٹ کے انتظار تک خاطیوں کو اپنے بچاؤ کی راہ تلاش کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ایسے اساتذہ اور تعلیمی ذمہ داروں کی کونسلنگ کے ذریعہ ٹیچنگ طریقہ کار اور اسکولوں میں طلباء کے لئے ایک خوشگوار فضاء پیدا کرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ آندھراپردیش کے اسکول کی طرح ہندوستان کے مختلف اسکولوں اور گھروں میں تشدد کے واقعات ہوں یا بنگلور کے ایک اسکول میں 6 سالہ طالبہ کی عصمت ریزی کا واقعہ ہر ایک کے لئے تشویش کا باعث ہیں۔ خاص کر والدین اور سرپرستوں کے لئے ایسے واقعات دلی تکلیف اور دُکھ دینے والے ہوتے ہیں۔ نابینا بچوں پر چھڑی سے بیدردی سے تشدد کرنا سراسر ایک ناپسندیدہ اور قابل مذمت عمل ہے۔ بچے مار کھا کر زور زور سے چیختے رہے

اور اساتذہ انھیں پھر بھی مارتے رہیں تو یہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا عمل سمجھا جائے گا۔ اسکولوں میں جسمانی سزاؤں کا سامنا کرنے والے طلباء کے تحفظ کے لئے حکومت اور ماہرین تعلیم کو کوئی متبادل مؤثر پرامن طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ بچوں پر تشدد کی ویڈیو جب منظر عام پر آتی ہیں تو انسانی دلوں کو مضطرب کردیتی ہیں۔ روح کو ہلا دینے والے ایسے واقعات ہندوستان میں اسکولوں کے اندر بچوں کے تحفظ کے معاملے پر بحث کا موضوع بن رہے ہیں۔ اسکول میں کمسن بچی کی عصمت ریزی کا واقعہ ہندوستان میں جنسی تشدد کے بڑھتے واقعات کی بدترین مثال ہے۔ سخت قوانین اور سزائے موت کے فیصلوں کے باوجود جب بچوں پر جنسی حملوں کو روکا نہیں جاسکے تو پھر اخلاقیات، نفسیات اور سماجی بُرائیوں کے سدباب کے لئے کام کرنے والے ماہرین کے لئے لمحہ فکر ہے۔ کارپوریٹ اسکولوں میں جب عصمت ریزی کا واقعہ پیش آتا ہے تو پھر دیہی علاقوں اور دور دراز مقامات کے سرکاری و امدادی اسکولوں کی حالت تشویشناک ہوسکتی ہے۔ اسکولوں کے نظم و نسق پر نظر رکھنے والے اداروں، سرکاری محکموں کو چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اسکولوں میں بعض بچوں کی ڈسپلن شکنی، سیل فونس کا استعمال، فحش کلامی کا ماحول پیدا کیا جانا تشویشناک ہوتا ہے۔ ایسے بچوں کو قابو میں کرنے کے لئے سختی اختیار کرنا متعلقہ ذمہ داروں کا کام ہوتا ہے۔ اس کے لئے احتیاط کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ اساتذہ اپنے طالب علم کو ایک اچھا شہری بنانا چاہتے ہیں تو ان کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کرنا مسائل کا حل بھی ہوسکتا ہے۔ عام طلباء کے ساتھ یکساں سلوک کو اہمیت دی جائے۔ امتیازات سے پرہیز کیا جائے۔ نوخیز ذہنوں میں تعلیم کی باریکیوں کو جگہ دینے کے بجائے تشدد کی تکلیفوں سے دوچار کیا جانا قطعی ناپسندیدہ حرکت ہے۔