اسٹالین سے کے سی آر کو مایوسی

دامن کے ساتھ ساتھ وہ نظریں بچا گئے
کیا جانے اُن کے دل میں تھا کیا ہم کو دیکھ کر
اسٹالین سے کے سی آر کو مایوسی
لوک سبھا انتخابات سے قبل تیسرے محاذ کے قیام کیلئے چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے ڈی ایم کے سربراہ اسٹالین نے کہاکہ تیسرے محاذ کا کوئی موقع نہیں ہے۔ آنے والے چند دن سیاسی پارٹیوں کیلئے اہم ہیں بلکہ ان علاقائی پارٹیوں کے لئے بے تابی اور اضطرابی کیفیت کے حامل ان دنوں کے دوران کچھ نہ کچھ بیانات جاری کرتے ہوئے ایک متزلزل موقف ظاہر کرتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں یا حکمراں پارٹی کے اتحادی جماعتوں کا موقف تو23 مئی کے بعد ہی واضح ہوگا۔ اس وقت تک ہر ایک لیڈر قیاس آرائیوں اور خوش فہمیوں میں مبتلاء رہے گا۔تیسرے محاذ یا غیر کانگریس، غیر بی جے پی کا علاقائی پارٹیوں پر مشتمل ایک وفاقی ڈھانچہ تیار کرنے کی فراق میں سرگرم مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے چینائی پہنچ کر جب ڈی ایم کے سربراہ اسٹالین سے ملاقات کی تو یہ توقع تھی کہ اسٹالین کی جانب سے کے سی آر کو مثبت جواب ملے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسٹالین کے تیور کو دیکھنے کے بعد کے سی آر نے اخباری نمائندوں کے سوالوں کا راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے اپنی ناکامی یا پشیمانی کو یہ کہتے ہوئے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی کہ وہ ٹاملناڈو کو سیاسی اتحاد کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ وہ یہاں کی مختلف مندروں میں پوجا پاٹ کرنے آئے ہیں جبکہ اسٹالین سے ان کی ملاقات خیرسگالی تھی۔ چیف منسٹر تلنگانہ نے صحافیوں کے سامنے اپنی ناراضگی یا مایوسی ظاہر ہونے نہیں دی لیکن اسٹالین کے موقف سے وفاقی محاذ بنانے کی کوشش کو دھکہ لگا ہے۔ وہ اس کو ہرگز فراموش نہیں کرسکیں گے بلکہ وہ اپنی اس مہم کو پہلے سے زیادہ شدید بنانے کی کوشش کریں گے۔ کے سی آر کی یہ عادت ہے کہ وہ جس کا م کا بیڑا اُٹھاتے ہیں اسے آخر تک انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 23 مئی کے لوک سبھا نتائج کے بعد ہی وفاقی محاذ یا تیسرے محاذ کی تصویر صاف ہوگی۔ مرکز میں ایک غیر کانگریس و غیر بی جے پی محاذ بنانے کی کوشش کا جہاں تک سوال ہے اس نام نہاد تیسرے محاذ کے قیام سے قبل ہی برا انجام ہورہا ہے۔ اسٹالین نے صاف کہہ دیا کہ وہ ملک میں کسی تیسرے محاذ کے حامی نہیں ہیں بلکہ کانگریس کی ہی حکومت ہوگی اور علاقائی پارٹیاں اس حکومت کی تائید کریں گی۔ اسٹالین سے کے سی آر کی ملاقات سیاسی اعتبار سے غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ کیوں کہ ڈی ایم کے کو جو کانگریس زیر قیادت متحدہ محاذ کی باقاعدہ حلیف پارٹی کا موقف حاصل ہے کے سی آر کو کانگریس کی جانب لانے میں کام آئے گی۔ اسٹالین آنے والے دنوں میں مرکز کی کانگریس زیر قیادت امکانی مخلوط حکومت کے لئے کے سی آر کو شامل کرنے یا ان کی تائید حاصل کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ اسٹالین سے کے سی آر کی اس ملاقات کے دو پہلو سامنے آئے ہیں، ایک پہلو غیر بی جے پی محاذ بنانے کیلئے اور دوسرا پہلو وفاقی محاذ بنانے کے لئے بھی کانگریس کی حمایت یا باہر سے تائید ہونا لازمی ہوگا۔ اگر علاقائی پارٹیاں مل کر اپنا محاذ بناتی ہیں تو اس محاذ کو مطلوب تعداد کو پورا کرنے کیلئے کانگریس کی باہر سے تائید ہونا ضروری ہوگا۔ سیکولر علاقائی پارٹیاں مل کر اگر کانگریس سے حمایت کی خواہش کریں گی تو عین ممکن ہے کہ کسی بھی پارٹی کو قطعی موقف نہ ملنے کی صورت میں ایک سیکولر محاذ کو کانگریس کی جانب سے باہر سے تائید کی پیشکش کی جائے گی۔ مرکز سے فرقہ پرستوں کا صفایا کرنے کیلئے سیکولر گروپ کو ہی ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا۔ ڈی ایم کے نے جس طرح سے اپنے موقف کو واضح کرتے ہوئے وفاقی محاذ سے دور رہنے کا اشارہ دیا ہے اس سے کے سی آر کو فی الحال مایوسی ہوگی مگر آنے والے دنوں میں یہی اسٹالین مرکز میں کانگریس کی حکومت سازی کے لئے اہم معاون کردار ادا کریں گے اور کے سی آر کو اپنی صف میں لاتے ہوئے ایک سیکولر محاذ کی بنیاد ڈالیں گے تاہم اس وقت مرکز میں این ڈی حکومت کے امکانات کو دیکھتے ہوئے کانگریس زیر قیادت محاذ کی کے سی آر کی جانب سے تائید کے آثار کم ہیں۔ مگر آئندہ 7 دن ملک کی سیاسی فضاء ان قائدین کے اضطرابی ماحول کو شدید گرم رکھے گی۔ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں جو کچھ کھیل شروع ہوگا اس میں سیکولر اور فرقہ پرستوں کے چہرے نمایاں اور مدھم ہوتے نظر آئیں گے۔