اسلام کے پیروکار ہر رنگ و نسل میں ہیں

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس)

جس وقت عباسیوں نے عبائے خلافت زیب تن کی، اندلس (اسپین) میں قائم مسلم حکومت نے اپنا ناطہ خلافت بغداد سے توڑ لیا اور کم و بیش ایک ہزار سال تک حکومت کرنے کے بعد ۱۴۹۲ء میں اس عظیم الشان اسلامی سلطنت کے بچے کھچے حصے قسطلہ کے مسیحیوں نے ضم کرلئے۔ اسپان کا مسلم دور اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کا دور تھا۔ یہاں قائم یونیورسٹیوں میں حصول تعلیم کے لئے یورپ بھر سے غیر مسلم طلبہ آتے تھے۔ اس ملک کے چپے چپے پر بکھری مسلم فن تعمیر کی یادگاریں جن میں سے بیشتر اب صرف کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں، اس شعبے میں مسلمانوں کے کمال فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سیاسی زوال کے بعد مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی، انھیں تلوار کی نوک پر عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا، انکار کی سزا موت تھی۔ ان کی لائبریریوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کیا گیا۔ ایک ایک وقت میں ہزاروں قیمتی کتابوں کے قلمی مسودے جلا دیئے گئے اور اس دور میں جب ابھی چھاپہ خانے وجود میں نہیں آئے تھے، یہ ایک ایسا نقصان تھا، جس کی کبھی تلافی نہیں کی جاسکی۔

سرزمین چین کا بیشتر حصہ اسلام کی سیاسی بالادستی سے ناآشنا رہا۔ وسط ایشیا سے پیش قدمی کرتے ہوئے مسلمانوں نے مشرقی ترکستان (اب چین کا صوبہ سن کیانگ) کو اسلام کی روشنی سے منور کیا اور غالباً بحری راستہ اختیار کرتے ہوئے جنوبی صوبہ یون نان کو بھی مسلمان کیا۔ مسلم مبلغوں کی پرامن اور خاموش سرگرمیوں کے نتیجے میں تبت اور چین کے لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، تاہم چین کی آبادی کا بیشتر حصہ اسلام کے توحید کے پیغام سے محروم رہا۔

جہاں تک جنوب مشرقی ایشیا کا تعلق ہے، اس کی کہانی بالکل مختلف ہے۔ ان آخری صدیوں میں جنوبی عرب اور جنوبی ہندوستان کے مسلم تاجروں نے اس خطے کا رخ کیا اور یہ ان کی بے لوث کوششوں کا اعجاز ہے کہ نہ صرف جزیرہ نما ملایا، بلکہ علاقہ کے ہزاروں جزائر کی مکمل آبادی نے اسلام قبول کرلیا۔ انڈونیشیا اور فلپائن کے جنوبی جزائر میں اسلام کو قابل ذکر حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہ علاقہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ یہ خطے یورپیوں خصوصاً انگریزوں اور ولندیزیوں کے قبضے میں آگئے اور بالآخر صدیوں کی غلامی کے بعد انڈونیشیا کے کروڑوں مسلمانوں نے بیرونی استبداد سے آزادی حاصل کی اور اسی طرح جزیرہ نما ملایا نے بھی آزادی کی منزل حاصل کرلی۔

شمالی افریقہ میں مصر سے لے کر مراکش تک اسلام کی آمد بالکل ابتداء میں ہو گئی، جب کہ براعظم کے باقی حصوں کے لوگ اسلام سے مختلف ادوار میں آشنا ہوئے۔ مشرقی افریقہ کا قدرتی طورپر اسلام سے سامنا سب سے پہلے ہوا، کیونکہ عرب سے یہی خطہ قریب ترین تھا۔ اس خطے کے وسیع علاقے نہ صرف مسلمان ہو گئے، بلکہ یہاں قابل ذکر اہمیت کے حامل مسلم ممالک بھی وجود میں آئے۔

مغربی افریقہ میں اسلام کے اثرات قدرے تاخیر سے پہنچنے شروع ہوئے، مگر بعض مسلم حکمرانوں کی سرگرم کوششوں سے مقامی تہذیب اور روایات سے بھی مدد ملی۔ لوگوں کی بڑی تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی اور ہم ان تمام ادوار میں یہاں بڑی مسلم سلطنتیں قائم دیکھتے ہیں۔ عرب مؤرخوں کے مطابق یہ اس خطہ کے بحری راستوں کے ماہر مہم جو ہی تھے، جنھوں نے سب سے پہلے براعظم امریکہ خصوصاً برازیل کا راستہ دریافت کیا۔ کرسٹوفر کولمبس کی قیادت میں جانے والے اولین یورپی باشندوں اور ان کے بعد کے مہم جوؤں کی ملاقات وہاں آباد سیاہ فاموں سے ہوئی۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ باور کرنے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ سیاہ فام افریقہ کے مسلمانوں اور بربروں نے امریکہ کی آبادکاری میں حصہ لیا، جیسا کہ برازیل کے نام سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ برازیلہ ایک مشہور بربر قبیلہ ہے اور اس قبیلہ کے ارکان کا اجتماعی نام یقیناً برازیل ہے۔ اسی طرح اوقیانوس میں جزیرہ پلمہ کو پہلے بنی ہور کہا جاتا تھا اور یہ نام بربر قبیلہ بنی ہوارا کے نام پر تھا، جس سے اس دعویٰ کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ مسلمان افریقی اہل یورپ سے بھی پہلے براعظم امریکہ میں پہنچ چکے تھے۔ امریکہ کے ساتھ مسلم مغربی افریقہ کے تعلقات مسلم اسپین کے سقوط اور اہل یورپ کے امریکہ تک باقاعدہ بحری سفر کے آغاز تک جاری رہے۔

دریں اثناء افریقہ، یورپی طاقتوں فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، پرتگال اور بیلجیئم کی ہوس ملک گیری کا بھی شکار ہو گیا۔ براعظم کے بہت سے خطے ایسے ہیں، جو مسلمانوں کے سیاسی اقتدار سے آزاد رہے اور وہاں بھی اسلام پھیل رہا ہے۔ حالانکہ ان کے مغربی آقاؤں کی طرف سے اس راستے میں مسلسل رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں، بلکہ صورت حال پر نظر رکھی جاتی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کی لہر کے ساتھ مسلم اکثریت کے بیشتر ممالک آزاد ہوچکے ہیں، گوکہ بعض ممالک میں غیر مسلم حکمراں جبر و تشدد سے اپنی آمریت برقرار کھے ہوئے ہیں، جب کہ بعض علاقے بتدریج خود مختاری کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فرانسیسی صومالی لینڈ، کمورز اور اسپینش صحارا اس کی مثالیں ہیں۔ (یہ علاقے اب مکمل آزاد ہوچکے ہیں)

انڈونیشیا سے مراکش تک تیس سے زیادہ مسلم ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں (اب اقوام متحدہ کے رکن اسلامی ممالک کی تعداد ساٹھ کے لگ بھگ ہے) اگر یورپ کے اندر ایک مسلمان ملک البانیہ ہے تو یونائیٹڈ سوشلسٹ سوویت ری پبلک (روس کے حصے بخرے ہونے سے قبل یہ روس کا نام تھا، جس کی کوکھ سے ۱۷ ممالک جنم لینے کے باوجود اب بھی روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے) کے اندر دوسری مسلم جمہوریائیں بھی ہیں، جو خود مختاری کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں اور جہاں مذہب کی آزادی کے حوالے سے بھی بہتر صورت نمودار ہو رہی ہے۔

برطانویوں نے جو دولت مشترکہ بنائی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر مسلم ممالک کی مجموعی بالادستی ساتھی مسلم ممالک کی حقیقی آزادی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی، بشرطیکہ ان کے حکمران بیدار مغز، ذہین اور اپنے مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دینے والے ہوں۔ اگر اسپین، فرانس، روس، ہندوستان، چین اور دوسرے ممالک اپنے مسلم شہریوں کو حقیقی خود مختاری (داخلی) پر قائل کرلیں تو مکمل آزادی کے لئے ان کی جدوجہد اپنا جواز کھو بیٹھے گی اور ہر فرد امن اور تعاون کے ساتھ ایک عالمگیر فلاح کی فضاء میں زندگی گزارے گا۔

اسلام کے پیروکار ہر رنگ و نسل میں موجود ہیں اور صدیوں سے موجود ہیں۔ سوائے امریکی ریڈ انڈینس کے، عربی بولنے والی اقوام اپنی اہمیت خصوصاً اس بنیاد پر جتلاتی ہیں کہ اسلامی تعلیمات کے سرچشمے قرآن اور حدیث عربی زبان میں ہیں۔ ہندوستانی، پاکستانی اور ملائی انڈونیشیائی دو بڑے نسلی گروپ ہیں، جب کہ سیاہ فام نسل اب تک اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ پروفیسر آرنلڈ ٹائن بی جیسے عالم بھی یہ رائے دیتے ہیں کہ انسانی تہذیب کے آئندہ مرحلے کی قیادت سیاہ فاموں کے ہاتھ میں ہوگی اور اسلام کے پھیلاؤ کا زیادہ زور اس وقت سیاہ فاموں میں ہے اور سیاہ فام نومسلموں میں اسلام کے لئے پایا جانے والا جوش و خروش مسلمہ ہے۔ (’’اسلام کیا ہے؟‘‘ سے اقتباس)