اسلام کے احکام طہارت ونظافت

از: مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ

اکثرمساجدکے طہارت خانوں ،فروش وغیرہ کی عدم صفائی کے تناظرمیں

الحمدللہ! رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوچکاہے،رمضان المبارک کی آمد سے قبل مساجد کی آہک پاشی ،رنگ وروغن کا خاص اہتمام ہوتاہے، مساجد کی سالانہ تزئین کے ساتھ روزانہ ،ہفتہ واری وماہواری صفائی کا بھی اہتمام ہونا چاہیئے،مساجد کی درودیوار ،چھت اورفرش وغیرہ کی صفائی سال میں ایک دومرتبہ کرلی جائے تو اس سے صفائی وستھرائی کا حق ادانہیں ہوسکتا۔خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد ابراہیم واسماعیل علیہما السلام سے بیت اللہ کو صاف وستھرارکھنے کا اللہ سبحانہ وتعالی نے عہدلیا’’ہم نے ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام)سے میرے گھر کو خوب صاف ستھرارکھنے کا عہدلیا،طواف کرنے والوں اوراعتکاف کرنے والوں اوررکوع وسجودکرنے والوں کیلئے ‘‘(البقر:۱۲۵)سورۃ الحج :۲۶؍میں بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ایسی ہدایت دئیے جانے کا ذکرہے اسلئے مساجد اورمساجد سے متعلقہ گوشوں کی صفائی ستھرائی کا روزانہ بکثرت اہتمام ہونا چاہئیے تاکہ نماز وعبادت ،ذکروتلاوت،تعلیم وتعلم کی غرض سے مساجد میں آنے والوں کوکسی تکدرکا احساس نہ ہو بلکہ مساجد کی حاضری انکے لئے تسکین خاطرکا باعث ہو۔
اسلام نے طہارت وپاکی پر بڑا زور دیاہے ،اس میں ظاہر ی طہارت بھی شامل ہے اورباطنی طہارت بھی،ظاہری طہارت سے دہن کی صفائی ،بدن کی صفائی لباس کی صفائی اورحال وماحول کی صفائی وغیرہ جیسے امورمراد ہیں۔ قرآن پاک میں قباء کی بستی میں رہنے والوں کی اللہ سبحانہ نے تعریف فرمائی ہے’’اس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو خوب پاک وصاف رہنے کو پسندکرتے ہیں،اوراللہ سبحانہ وتعالی خوب پاک رہنے والوں کو پسندفرماتا ہے‘‘(التوبہ ؍۸)اس آیت پاک سے یہ بات واضح ہے کہ نظافت وطہارت اللہ سبحانہ کے ہاں قابل تحسین وصف ہے۔نظافت وطہارت طبعی وفطری امر ہے ،انسان فطری طورپر پاکی وصفائی کو پسندکرتاہے ،ظاہری نظافت وپاکیزگی خود انسان کیلئے جہاں فرحت بخش ہوتی ہے وہیں اسمیں دوسروں کی رعایت بھی ہے ،چونکہ ایک فرد کی عدم نظافت اسکے ساتھ رہنے والوں اورملنے والوں کیلئے کراہت وناپسندیدگی کا باعث بنتی ہے،ایسے فرد سے ملنے اورقریب ہونے کو پسندنہیں کیا جاتا،اسی لئے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے کچی پیازاورلہسن کے استعمال کے بعد دہن کی صفائی کے بغیرمساجد میں آنے کو ناپسندفرمایا ہے(بخاری: ۵۰۳۱)اسی پر قیاس کرکے یہ کہا جا سکتاہے کہ بیڑی ،سگریٹ،تمبا کو سے بنی زردہ یا گٹکا وغیرہ جیسی اشیاء استعمال کی گئی ہوں تو دہن کی صفائی کے بغیر مساجد میں آنا ناپسندیدہ ومکروہ ہوگا،اس سے اس بات کا بخوبی اندازہو جاتا ہے کہ فرد کی نظافت وطہارت کے حکم میں فرد کے ساتھ سماج میں رہنے والے دوسروں کی کس قدر رعایت ملحوظ ہے۔اسلئے ظاہری نظافت وپاکی کا خوب اہتمام ہونا چاہیئے، ایک انسان جسکا دہن پاک نہ ہو ،بدن پسینہ میں اٹاہو،لباس میلا کچیلا ہو،نظافت پسند طبیعتیں اس سے اباء (ناپسند)کرتی ہیں۔ ان تمام کی پاکی ونظافت  کے ساتھ رہن سہن پاک وصاف ہو ،مکانات کی صفائی کے ساتھ گلی کوچے اورمحلے بالخصوص ساری مسلم بستیاں طہارت وپاکی ،صفائی ونظافت کی مظہر ہوں ۔عفونت وگندگی ہر اعتبارسے ناپسندیدہ ہے خواہ وہ کہیں ہو،لباس وبدن میں ہو کہ رہائش گاہوں میں ،گلی کوچوں میں ہو کہ بستیوں میں ،یہی وجہ ہے کہ اسلام نے طہارت ونظافت کے خصوصی احکام دئیے ہیں ۔ کتب حدیث وفقہ میں’’ کتاب الطہارۃ‘‘کا ایک مستقل باب قائم کیا جاتا ہے اوراس میں وہ سارے مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں جنکا خاص طہارت وپاکی سے تعلق ہوتاہے ۔ فردکی نظافت وطہارت کے ساتھ سماج ومعاشرہ کی طہارت و نظافت بھی اسلام میں مطلوب ہے ،انفرادی اعتبارسے جہاں نظافت کی اہمیت ہے وہیں اجتماعی اعتبارسے بھی نظافت کی بڑی اہمیت ہے،طہارت ونظافت کو اسلام نے اس قدراہمیت دی ہے کہ اسکو نصف ایمان قراردیا ہے ’’الطہور شطرالایمان‘‘ (مسلم:۲۲۳) ’’شطر‘‘ کے معنی آدھے اورنصف کے آتے ہیں ،امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسی لفظ ’’نصف‘‘کے ساتھ روایت نقل کی ہے’’الطہورنصف الایمان‘‘(الترمذی)حدیث پاک میں شطر اورنصف سے ایک ہی معنی مراد ہے ،جس سے مقصود طہارت وپاکیزگی کی اہمیت واضح کرنا ہے،اوربتا نا ہے کہ طہارت وپاکیزگی ایمان کاایک اہم اورخاص شعبہ ہے۔

مومنانہ ذوق۔ مزاج و طبیعت کو پاکیزگی وطہارت کی پسندیدگی کی طرف لیجا تاہے ،مومنانہ کیفیات جس قدر اعلی ہوںگی پاکیزگی ونظافت کا ویساہی زیادہ احساس ذوق طبیعت کا حصہ بنے گا،ہر طرح وہ پاک وصاف رہنے کو پسند کریں گے یہاں تک کہ قضاء حاجت سے فراغت کے بعدوضوکئے بغیر رہنا انکے لئے باعث گرانی ہوگا،اسی طرح طہارت کبریٰ کی ضرورت درپیش ہو یعنی جس میں غسل فرض ہوجاتاہے تو ان کو غسل کئے بغیر وقت گزارنا گراں ہوگا۔اصل یہ ہے کہ نظافت پسند طبائع اس حالت میں اپنے اندربڑا تکدروانقباض محسوس کرتے ہیں ۔ سلیم الفطرت طبیعتوں کو حسب تقاضہ وضو یا غسل کے بغیر رہنا پسندنہیں ہوتا۔قضاء حاجت کے بعدعمدہ انداز میں استنجاء یعنی ان اعضا ء سے جو نجاست خارج کرتے ہیں خوب طہارت وپاکی کااہتمام کرنے پھروضویاغسل سے بدن کی طہارت وپاکی ،عمدہ ،سادہ صاف ستھرا پاکیزہ لباس زیب تن کرنے اورخوشبو لگانے نیز اپنے دہن کو مسواک سے خوب صاف رکھنے کا اہتمام انکی عاد ت ثانیہ بن جاتاہے۔ظاہری پاکی کے باطن پر اثرات مرتب ہوتے ہیں،ظاہر پاک ہو تو انسان کا باطن بھی پاک ہوتاہے ۔اسلام نے جو طہارت کے احکام دئیے ہیں اسکی پابندی انسان کی روح کو پاکیزہ بناتی ہے اوراسکی روحانی کیفیات میں اضافہ کرتی ہے ۔ظاہری طہارت وپاکی کے اہتمام سے حاصل ہونے والی روحانی کیفیات کی وجہ مدارج قرب میں اضافہ ہوتاہے ۔اللہ تعالی کا ارشادہے’’بے شک اللہ تعالی خوب توبہ کرنے والوں اورخوب پاک وصاف رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے‘‘(البقرۃ:۲۲۲)
اسلام ایک فطری مذہب ہے جسکی رہنمایا نہ ہدایات فردومجتمع یعنی معاشرہ سب کا احاطہ کرتی ہیں،اسلام جو طہارت وپاکیزگی کا داعی ہے اسکے ماننے والے اگرزندگی کے سارے گوشوں بالخصوص عبادت گاہوں سے طہارت ونظافت کا عملی پیغام نہ دے سکیں تو اس سے بڑھ کر قابل افسوس بات اورکیا ہوسکتی ہے؟مساجد جو اللہ کا گھر ہیں انکی تعمیری زیبائش وآرائش کی طرف توخصوصی توجہ دی جانے لگی ہے،رنگ وروغن کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے ،بعض مساجد تو زرکثیر صرف کرکے مزین سے مزین کر دی گئی ہیں،لیکن تجربہ ومشاہدہ یہ ہے کہ اکثرمساجد کے طہارت خانے بڑے گندے رہتے ہیں ،جیسی صفائی ودھلائی کا اہتمام ہونا چاہئیے نہیں ہوپاتا۔شدید تقاضہ کی وجہ راہ گیروں میں کوئی نماز کیلئے آنے والا طہارت خانہ کا رخ کرتا ہے توسخت تکدرواضطراب کا شکار ہوجاتاہے ،بڑی دیر تک تکدروانقباض برقراررہتاہے ،وضوسے فراغت کے بعد بسااوقات جماعت میں شرکت سے بھی اس ناخوشگوار احساس کا خاتمہ نہیں ہو پاتا۔ہونا تویہ چاہئیے کہ طہارت خانے صاف ستھرے ہوں ،قبل نماز وبعد نمازانکی صفائی کا خاص اہتمام ہو ،انتظامیہ کا فرض ہے کہ طہارت خانوں کی صفائی کیلئے ذمہ دار اصحاب کا تقررکرے اورانکو اچھا معاوضہ دے تاکہ وہ دلجمعی سے اپنا فرض اداکریں۔مصلیان مسجد کے سواراہ گیروں یا بازار میں تجارت و کاروبار کرنے والوں پرمساجد کے طہارت خانوںکے استعمال پر روک لگنی چاہیئے کیونکہ مساجد کے طہارت خانے مصلیان مسجد کیلئے مختص ہوتے ہیں،نماز کی ادائیگی مقصود اصلی ہے طہارت خانوں سے استفادہ ضمنی،لیکن غیر مصلی اصحاب کیلئے مساجد کے طہارت خانے اصالۃ ہی مقصود معلوم ہوتے ہیں ضمنا نہیں جو ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔الغرض مصلیان مسجد ہوں کہ دیگراصحاب مساجد کے طہارت خانوں میں پان زردہ اورگٹکا وغیرہ استعمال کرکے طہار ت خانوں میں تھوکنے اورسگریٹ نوشی کے ذریعہ طہارت خانوں کی فضاء کو آلودہ کرنے کی ہر گز انکو اجازت نہیں ملنی چاہئیے،اس پر کیسے قابو پائے جائے اسکی طرف بھی منصوبہ بندکوشش ہونی چاہئیے ۔وضو خانے خوب صاف ستھرے ہوں ،انکی صفائی وپاکیزگی کاخوب انتظام واہتمام انتظامیہ کی خصوصی توجہ کا طالب ہے،اسکے علاوہ بعض مساجد کی جائے نمازیں بھی بڑی قابل رحم ہوتی ہیں،مساجد تو خوب مزین ہوتی ہیں لیکن شرائط نماز میں سے ایک اہم شرط’’ جگہ کی پاکی‘‘ بڑی حد تک مفقود ہوتی ہے۔ظاہر ہے جائے نمازیں کسی نجاست سے آلودہ تو نہیں ہوتیں لیکن گرد وغبار میں اس قدر اٹی ہوتی ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے اورسجدہ کرتے ہوئے تکدرکی وجہ خشوع وخضوع کما حقہ برقرارنہیں رہ پاتا۔گزشتہ ماہ احقر کو شہر کی ایک تاریخی اورخوبصورت مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ،جائے نمازوں اوراسکے صحن وفرش کی عدم صفائی دیکھ کرصدمہ ہوا۔مساجد کی تعمیر وتزئین میں جب زرکثیر صرف ہوتا ہے تو مساجد کے فرش صاف ستھرے رکھنے میں آخرکونسی چیز مانع ہے؟انتظامیہ کی غفلت ولا پر واہی اورمصلیان مسجد کی لاپر واہی و عدم توجہ دہانی ہی اسکا سبب ہوسکتی ہے۔اسلام جو طہارت و نظافت کا نقیب ہے اسکے ماننے والے اگرمساجد کے طہارت خانوں ،وضوخانوں اور اسکے صحن اوراندرون فرش اورجائے نمازوں کو صاف ستھرا رکھنے کا فرض پورا نہ کر سکیں تو پھر اسکی کس سے توقع کی جا سکے گی۔ ماہ رمضان المبارک میں مصلیان مسجد کی تعدادمیں اضافہ ہوجاتاہے اوراکثرمساجد تنگ دامنی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں ،ایسے میں جہاں تعمیر وتزئین میں زرکثیر صرف کیا جاتا ہے وہیں خطبا ء ،ائمہ ،مؤذنین اورخدامان مسجد کیلئے بھی دل میں نرم گوشہ ہونا چاہئیے ،بلکہ مساجد کی ظاہری آرائش وزیبائش سے زیادہ مساجد کی خدمات سے منسلک ان تمام کیلئے آمدنی کا زیادہ حصہ مختص ہونا چاہئیے ۔ اورآمدنی کا دوسرا بڑا حصہ مسجد سے متعلقہ طہارت خانو ں،وضوخانوں اورمسجد کی جائے نمازوں کی دیکھ بھال اوران پر صاف ستھرے فروش کیلئے ہونا چاہئیے۔
نوٹ  :۔گرامی قدرمحترم ایڈیٹرصاحب حفظہ اللہ’’ روزنامہ سیاست ‘‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اکثرقارئین سیاست کی خواہش ہے کہ مضمون کے ساتھ احقرکا فون نمبر بھی شائع ہو تاکہ رابطہ میں سہولت ہو،چنانچہ حال ہی میں ملک مشہورومؤقرعالم حضرت مولانا صبغۃ اللہ بختیاری رحمہ اللہ الباری کے فرزندگرامی مولانا حمداللہ بختیاری زیدمجدہ مختلف جگہ رابطہ کرکے احقرکے پاس بنگلورشہرسے پہونچے ،انہوں نے احقر کا ایک مضمون ’’پانی ایک لا قیمت نعمت‘‘سیاست میں پڑھا تھا اوراسکو محفوظ بھی کرلیا تھا لیکن وہ ان سے گم ہوگیا فقط اسکی تلاش انکو بنگلورسے حیدرآباد آنے پر مجبورکی ، احقرنے وہ مضمون ان کے حوالہ کیا انکا شدید اصرارتھا کہ مضمون کے ساتھ فون نمبریا ای۔میل درج ہو تو قارئین کو رابطہ میں سہولت ہوسکتی ہے  ۔فقط