اسلام سے قبل اور بعد عورت کا مقام

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی

دین اسلام وہ دین ہے، جس نے عورت کو اس کے کھوئے ہوئے حقوق واپس دلائے۔ تاریخ عالم پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام سے پہلے دنیا کے مختلف معاشروں میں عورت کے حقوق کو پامال کیا جاتا تھا اور عورت کو اس کا جائز مقام بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ مثال کے طورپر فرانس میں یہ تصور تھا کہ عورت کے اندر آدھی روح ہوتی ہے، اس لئے وہ معاشرہ میں برائی کی وجہ اور بنیاد بنتی ہے۔ ملک چین میں عورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ عورت کے اندر شیطانی روح ہوتی ہے، اس لئے پورے معاشرہ میں فساد کی بنیاد بنتی ہے۔ عیسائیت نے رہبانیت کو گڑھ لیا تھا، عیسائی علماء کہتے تھے کہ ازدواجی زندگی بسر کرنا اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں رکاوٹ ہے، چنانچہ ان کی تعلیم یہ تھی کہ مرد راہب بن کر رہے اور عورت راہبہ۔ یعنی دونوں مجرد زندگی گزاریں تو معرفت نصیب ہوگی۔ اسی طرح ہندوازم میں اگر کسی جوان عورت کا خاوند فوت ہو جاتا تو اس کو بدبخت سمجھا جاتا تھا،

حتی کہ خاوند کی لاش کے ساتھ اسے بھی جلادیا جاتا، یعنی عورت ستی ہو جایا کرتی تھی۔ اگر کوئی ایسا نہ کرتی تو اسے معاشرہ میں عزت و وقار کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ خود بلاد عرب میں اسلام سے قبل عورت کے حقوق کو اس قدر پامال کیا جاتا تھا کہ لوگ اپنے گھر میں بیٹی کا پیدا ہونا عار سمجھتے تھے اور کمسن بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ عورت کے حقوق اس حد تک چھین لئے گئے تھے کہ اگر کوئی شخص فوت ہو جاتا تو جس طرح اس کی جائیداد اس کے بڑے بیٹے کی وراثت میں آتی، اسی طرح اس کی بیویاں بھی اس بڑے بیٹے کو منتقل ہو جاتی تھیں، گویا مرنے والے کا بڑا بیٹا اپنی ماؤں کو اپنی بیویاں بنا لیتا تھا۔

اس وقت معاشرہ کی یہی حالت تھی، جب اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپﷺ نے آکر واضح کیا کہ ’’اے لوگو! عورت اگر بیٹی ہے تو یہ تمہاری عزت ہے، اگر بہن ہے تو تمہارا ناموس ہے، اگر بیوی ہے تو تمہاری زندگی کی ساتھی ہے اور اگر ماں ہے تو تمہارے لئے اس کے قدموں میں جنت ہے‘‘۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جس آدمی کی دو بیٹیاں ہوں، وہ ان کی اچھی تربیت کرے، ان کو تعلیم دلوائے، حتی کہ ان کا فرض ادا کرے تو وہ جنت میں ایسے ہوگا جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہیں‘‘۔ گویا بیٹی کے پیدا ہونے پر جنت کا دروازہ کھلنے کی آپﷺ نے بشارت دی۔

قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’جو کوئی بھی نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان والا ہو، ہم اس کو ضرور بالضرور پاکیزہ و طیب زندگی عطا فرمائیں گے‘‘۔ یعنی جس طرح مرد حضرات نیکی اور عبادت کرکے اللہ رب العزت کے ولی بن سکتے ہیں، اسی طرح عورتیں بھی نیکی اور عبادت کے ذریعہ ولایت کے انوارات حاصل کرسکتی ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کے لئے بھی ولایت کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ چنانچہ دین اسلام نے عورتوں کو ایسا وقار عطا کیا ہے، جو دنیا آج تک انھیں نہیں دے سکی۔ ایسا وقار کہ گھر میں ان کو عزت کی نظر سے دیکھا جائے اور معاشرہ میں ان کو محترم سمجھا جائے، جب کہ دور حاضر کی اسلام دشمن قوتیں مسلم خواتین کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ’’اسلام نے ان پر بہت زیادہ پابندیاں عائد کی ہیں‘‘ حالانکہ ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے معاشرہ کی کئی پڑھی لکھی خواتین بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ شاید ہمیں ہمارے جائز حقوق نہیں دیئے گئے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو پردہ کا حکم دیا ہے، جب کہ غیر مسلم معاشرہ میں عورت بے پردہ پھرا کرتی ہے۔ اس پردہ کا فائدہ جہاں مردوں کو ہے، وہیں عورتوں کو بھی ہے کہ ہماری ازدواجی زندگی پرسکون ہوتی ہے اور ہم خوشیوں بھری زندگی گزارتے ہیں۔ سویڈن ایک امیر ترین ملک ہے، وہاں کا کوئی باشندہ اگر بیکار ہے تو وہ صرف حکومت کو اپنی بیکاری کی اطلاع دیتا ہے، اس کے بعد حکومت اس شخص کو گھر بیٹھے بیس ہزار روپئے ماہانہ دیا کرتی ہے اور اگر بیمار ہو جائے تو لاکھوں روپئے اس کے علاج پر بھی صرف کرتی ہے۔

یعنی وہاں روٹی، کپڑا اور مکان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، تاہم وہاں کے مرد و خواتین پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے، وہ جب چاہیں اور جس طرح چاہیں ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں اور اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں کے معاشرے میں طلاق کی شرح ۷۰ فیصد ہے اور خودکشی کرنے والوں کا تناسب دیگر ممالک کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ یعنی سب کچھ ہونے کے باوجود بے حیائی اور بے پردگی کی وجہ سے انھیں سکون نہیں حاصل ہو رہا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جس ماحول میں ۷۰ فیصد سے زیادہ طلاق کی شرح ہوگی، وہاں کے لوگوں کو ذہنی پریشانی اور خودکشی کے علاوہ کیا ملنے والا ہے؟۔

شریعت مطہرہ نے جو پردہ کی پابندی کا حکم دیا ہے، اس کا فائدہ ہمیں اس طرح سے حاصل ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوسکتی ہے، ہمارے لباس اور مکان کمزور ہو سکتے ہیں، مگر اس کے باوجود ہمارے مسلم معاشرہ میں طلاق شرح بہت کم ہے۔

دین اسلام کی مہربانی دیکھئے کہ اسلام نے عورت پر روزی کا کمانا فرض نہیں کیا۔ بیٹی ہے تو باپ کا فرض ہے کہ وہ بیٹی کو روٹی کماکر کھلائے۔ اگر بہن ہے تو بھائی کا فرض ہے کہ کماکر لائے اور بہن کے کھانے کا انتظام کرے۔ اگر بیوی ہے تو خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ کماکر لائے اور بیوی کو گھر میں بٹھاکر کھلائے۔ گویا اسلام نے روزی کمانے کا بوجھ عورت پر نہیں ڈالا۔ اس کے سر پر یہ بوجھ نہیں ڈالا کہ پہلے تمھیں کمانا ہے اور پھر اس کے بعد کھانا ہے، بلکہ یہ ذمہ داری اس کے قریبی مردوں (یعنی باپ، بھائی اور شوہر) کو سونپ دی ہے کہ تم کو کمانا بھی ہے اور گھر کی عورتوں کو کھلانا بھی ہے۔ عورت گھر کی ملکہ بن کر رہے گی، بچوں کی تربیت کرے گی اور گھر یلو زندگی کے تمام معاملات کو سنبھالے گی۔ اب غور کیجئے کہ کس معاشرہ نے عورت کو اتنی زیادہ آسانی کی زندگی دی ہے؟۔