اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتین یاہو کا ہندوستان میں طویل دورہ اور اس کے اسباب

وزیراعظم مودی سنگھ پریوار کے ارکین کو خوش کرنے کی خاطر اسرائیل کی جتنی چاہیں تعریف کرلیں‘ انہیں اس بات کا مکمل ادارک ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ ہندوستان کے رشتے کسی حالت میں ناخوشگوار نہ ہوں۔ عرب ممالک ہی سے ہندوستان اپنے تیل اور گیس کا ساٹھ فیصد ضرورتیں پوری کرتا ہے اور 70سے 75لاکھ ہندوستانی شہری مشرقی وسطی کے مختلف ممالک میں برسرروزگار ہیں جو اربوں ڈالر کا زر مبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اقوام متحدہ میں ہندوستان امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ کرتا ہے سشما سوارج نیویارک کی ایک پریس کانفرنس میں کہتی ہیں کہ ہندوستان فلسطینیوں کی حمایت کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹاہے اور اب خبر یہ ہے کہ یاہوگی گرم جوش میزبانی کے چند ہفتوں کے اندر ہی مودی فلسطین کا دورہ کرنے والے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو ہندوستان کا طویل دورہ مکمل کرکے واپس جاچکے ہیں ۔ ان سے قبل سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور اقتدار میں ان کی دعوت پر پرایرم شرون ستمبر2003میں دہلی ائے تھے لیکن تل ابیب اور یروشلم میں ہونے والے دو دہشت گردانہ حملوں میں میں تیرہ یہودیوں کی ہلاکتوں کے سبب شیرون دورہ ادھوا چھوڑ کر دودن بعد ہی اسرائیل واپس چلے گئے تھے۔ اس کے باوجود ان کے دورے کی تاریخی اہمیت ہے کیونکہ وہ ہندوستان کا دورہ کرنے والے پہلی اسرائیلی وزیراعظم تھے۔نتن یاہو کے دورے کی بھی سفارتی او ر سیاسی اہمیت کم نہیں ہے کیونکہ پندرہ سال کے لمبے عرصہ کے بعد کسی اسرائیلی وزیراعظم کے قدم ہندوستان کی سرزمین پر پڑے ہیں۔

اس دورے کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ پچھلے ماہ واشنگٹن اور تل ابیب کے توقع کے برعکس ہندوستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے کے فیصلے کے خلاف جو وو ٹ دیاتھا وہ اسرائیلی حکومت کوناگوار گزرا تھا۔نتن یاہو نے انڈیاٹوڈے ٹی وی کو دئے گئے انٹر ویو میںیہ اعتراف کیاکہ اقوام متحدہ میں ہندوستانی موقف سے انہیں مایوسی ہوئی تھی تاہم انہوں نے یہ بھی وضاحت کردی کہ اس سے ہندوستان او راسرائیل کے باہمی رشتوں میں کوئی ناخوشگوار اثر نہیں پڑا ہے۔ اپنے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی سے رشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے یا ہو نے دعوی کیاکہ دونوں ممالک کے تعلقات تمام محاذوں پر تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

مودی نے جس والہانہ انداز میںیاہو او ران اہلیہ سارہ اور بھاری بھرکم اسرائیلی وفد کا خیر مقدم کیااور نہ صرف دہلی بلکہ احمد آباد میں بھی ان کی شاندار میزبانی کی ‘ اس سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ واقعی مودی او رنتن یاہو کے خصوصی رشتے ہیں ۔ مودی جنھوں نے پچھلے سال جولائی میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیراعظم کا شرف حاصل کیاتھا پروٹوکال کو درکنار کرکے اپنے صیہونی دوست کا بہ نفسہ نفیس استقبال کرنے ائیرپورٹ پہنچ گئے ۔

اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے وہ دورے کے دوران کئی بار نتن یاہو سے بغل گیر بھی ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو بار بار میرے دوست کہہ کر اپنی قریب کا ثبوت بھی دیا۔ احمد آباد میں مودی نے یاہو کے ساتھ ایک زبردست روڈ شو بھی کیا۔ دراصل وہ اپنے آبائی صوبے کے عوام کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اسرائیل سے آیامیرا دوست اور وہ نتن یاہو کو یہ دکھاناچاہتے تھے کہ گجرات میں ان کی کتنی مقبولیت ہے؟۔

مودی نے جولائی میں اسرئیل کا کامیاب دورہ کیاتھا اور دونوں لیڈروں کے مابین ہر قدم پر ساتھ چلنے کے عہد وپیمان ہوئی تھے۔وجس کے بعد دنیا کو واقعی یہ محسوس ہوا تھا کہ نتن یاہو کی اس بات کی صداقت ہے کہ اسرائیل اور ہندوستان کی جوڑی آسمانوں میں بنائی گئی ہے لیکن پھر کیاہوا؟۔ دسمبر میں اقوام عالم کے سبب بڑے پلیٹ فارم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہندوستان ان 128ممالک میں شامل تھا جنھیں امریکہ کے ناجائز فیصلے کے خلاف ووٹ دیکر اسرائیل کے منہ پر کرارا طمانچہ ماراتھا۔ایک اوراہم بات اس وقت ایران ‘ اسرائیل اور امریکہ دونوں کے نشانے پر ہے اور دونوں اس کو دشمن نمبر ون قراردے چکے ہیں ۔ نئی دہلی کے ٹرمپ اور نتن یاہو دونوں کے ساتھ قریبی رشتے ہیں لیکن یہ بالکل ناممکن ہے کہ اس وجہ سے تہران سے اپنے رشتے توڑ لیں۔