اسرائیلی عوام یاہو کو ووٹ نہ دیں، سابق سربراہ موساد کی اپیل

تل ابیب ، 28 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے سابق سربراہ نے اسرائیلیوں پر زور دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو اگلے ہفتے منعقد شدنی انتخابات میں ووٹ نہ دیں تاکہ وہ دوبارہ اقتدار پر آنے پائیں۔ موساد کے سابق سربراہ نے الزام لگایا کہ ایران سے متعلق نیتن یاہو کی پالیسیاں اسرائیلی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کو انٹرویو میں سابق سربراہ موساد مئیر داغان نے کہا کہ نیتن یاہو کی پالیسیاں ’’اسرائیل کے مستقبل اور سلامتی کیلئے تباہ کن‘‘ ہیں۔ داغان مستقبل قریب میں تل ابیب میں ایک ریلی سے بھی خطاب کرنے والے ہیں جہاں وہ ایک بار پھر نیتن یاہو کو وزیراعظم کے عہدہ سے ہٹانے کا مطالبہ کریں گے۔ داغان نے کہا کہ اس وقت دنیا میں ہماری ساکھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اس وقت اسرائیل کی قانونی حیثیت کا سوال زیر بحث ہے۔ ہمیں اپنے سب سے اچھے دوست کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئے۔ نیتن یاہو اگلے ہفتے واشنگٹن کے دورے پر جا رہے ہیں

جہاں وہ ریپبلکن ہائوس اسپیکر جان بوہنر کی دعوت پر امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کو دعوت خطاب پر وائٹ ہائوس اور ڈیموکریٹس دونوں نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی صدر اور نائب صدر کا کہنا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے خطاب میں شرکت نہیں کریں گے۔ داغان نے کہا: ’’میں امریکہ اور اس کے صدر کا مقابلہ کبھی نہ کرتا۔ نیتن یاہو کو کانگریس میں داد مل سکتی ہے مگر تمام طاقت کا منبع وائٹ ہائوس ہے۔ میں نہیں سمجھ پارہا ہوں کہ نیتن یاہو کانگریس سے خطاب کر کے کیا حاصل کر لیں گے۔ کیا انہیں صرف داد ہی اکٹھی کرنی ہے؟ میرے خیال میں واشنگٹن کا یہ دورہ ناکام ہو گا۔‘‘ سابق انٹلیجنس چیف نے کہا، ’’میں نے اسرائیل کے مختلف سکیورٹی اداروں میں 45 برس خدمات انجام دی ہیں جن میں اس ملک کو درپیش سب سے مشکل لمحات بھی شامل تھے مگر مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ ہم اپنے ملک کے وجود اور سلامتی کے سب سے نازک موڑ کر کھڑے ہیں‘‘۔ انہوں نے بہ اصرار کہا کہ انہیں نیتن یاہو کے خلاف کوئی بغض نہیں ہے

اور برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کے مطابق یاہو نے داغان کی جگر کی پیوند کاری میں اُن کی مدد کی تھی۔ داغان نے کہا، ’’مجھے وزیر اعظم سے کوئی ذاتی رنجش نہیں، نہ ہی ان کی اہلیہ اور ان کے خرچوں سے متعلق کوئی اعتراض ہے۔ میں اس ملک کی بات کر رہا ہوں جس کی وہ سربراہی کررہے ہیں‘‘۔ امریکی انتظامیہ کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم کو خود سے سوال کرنا ہوگا کہ اس کے خطرات کیا ہیں؟ آبادکاری کے معاملے پر دونوں امریکی پارٹیوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور اگر ہے بھی تو اس کے باوجود انہوں نے ہمیں ویٹو کی چھتری تلے رکھا ہوا ہے۔ اگر کسی تصادم کے نتیجے میں یہ چھتری ہٹ جاتی ہے تو بہت ہی قلیل عرصے میں اسرائیل عالمی پابندیوں کا شکار ہوجائے گا۔ داغان نے کہا، ’’ایسے تصادم کے خطرات ناقابل برداشت ہوں گے۔ ہم پہلے ہی ایک مہنگی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ میں جانتا ہوں اور ان کو عوام کو نہیں بتا سکتا ہوں‘‘۔