اسرائیلی جارحیت

جن سے انصاف کی توقع تھی
خود وہ کٹھ پتلی بن گئے ہیں میاں
اسرائیلی جارحیت
بیت المقدس مسجد اقصیٰ تنازعہ پر اسرائیلی فوج کی جارحیت میں اضافہ افسوسناک ہے۔ مصر، فرانس اور سوڈان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے اسرائیل کی سرزنش کرنے پر زور دیا تھا۔ اردن میں اسرائیلی سفارتخانہ کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ مقامی مظاہرین کی جانب سے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف غم و غصہ کا اظہار تھا۔ مسجد اقصیٰ اسرائیلی کارروائیوں کو فوری روکنا چاہئے۔ بیت المقدس مقام پر اسرائیل کے نئے سیکوریٹی انتظامات پر اسرائیلی فوج کے خلاف فلسطینیوں کا احتجاج اور جھڑپوں نے کشیدہ صورتحال پیدا کردی۔ مسجدا قصیٰ میں فلسطینی نمازیوں کو میٹل ڈیٹکٹر سے گذارنے کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسانا اور نہتے فلسطینی نوجوانوں کو ہلاک کرنے کی کارروائی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ صدر فلسطین محمود عباس نے میٹل ڈیٹکٹر لگائے جانے کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام رابطے ختم کردیئے۔ اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان تازہ جھڑپوں کی وجہ اسرائیلی جا رحانہ پالیسی ہے جو مسجد اقصیٰ پر اپنا تسلط بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کی ان کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے اگرچیکہ چار ملکی بین الاقوامی کمیٹی نے خود کو قابو میں رکھنے پر زور دیا ہے۔ امریکہ، روس، یوروپی یونین اور اقوام متحدہ پر مشتمل پرچار قومی کمیٹی نے اگر سختی سے قدم اٹھاتے ہوئے اسرائیل کو باز رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی تو پھر فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں کم ہوں گی مگر افسوساس بات کا ہیکہ یہ چار قومی کمیٹی صرف سطحی کوشش کے ذریعہ دنیا کویہ دکھانا چاہتی ہیکہ اس نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے بھی اپنے ہنگامی اجلاس میں بیت المقدس کی تازہ کشیدگی کم کرنے کیلئے فوری بات چیت شروع کرنے پر زور دیا۔ اسرائیل اسی بات چیت کے مرحلہ سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہوئے جارحیت پسندی پر اتر آیا ہے۔ بیت المقدس کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردینا فلسطینی نمازیوں کو منتشر کرنے کیلئے قابض صیہونی فوج کا نہتے مصلیوں پر لاٹھی چارج اور صوتی بم برسانے جیسے اقدامات نے اسرائیلی جارحیت کو ساری دنیا کے سامنے آشکار کررہا ہے۔ اس کے باوجود آج عالم اسلام پوری طرح بے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کے قبلہ اول اور حرم قدسی کو اسرائیل فوج اور پولیس نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ نمازیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یہ کھلی جارحیت عالم اسلام کے لئے دعوت فکر دیتی ہے ۔ عرب لیگ صرف بیانات کے ذریعہ اپنے وجود کا احساس دلا رہا ہے۔ عرب لیگ کے سکریٹری جنرلاحمد ابوالغیظ کا کہنا ہیکہ بیت المقدس ایک سرخ لائن ہے اگر اسرائیل اپنی حرکتو ںسے باز ن ہیں آیا تو حالات بگڑ جائیں گے۔ گویا اسرائیل آگ سے کھیل رہا ہے۔ اپنی پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعہ اس خطہ کو انتہائی خطرناک جگہ میں جھونک رہا ہے۔ اسرائیل کی پالیسیاں اور فوجی کارروائیاں نہ صرف فلسطینیوں کو نشانہ بنارہے ہیں بلکہ بیت المقدس پر اپنے تسلط کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہوئے ساری دنیا کے مسلمانوں کے جذبہ و صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ یہ تو دعویٰ کیا جاتا رہا ہیکہ عرب اقوام اور مسلمان اپنے قبلہ اول کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے مگر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اب تک کوئی شدید احتجاجی مظاہرہ نہیں دیکھا گیا۔ اسرائیل اسلامی دنیا کو للکارنے والے اقدام کررہا ہے۔ اس سے بہت بڑا اور سنگین بحران پیدا کرنے کی بھی کوشش ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل اجلاس میں سخت ترین کارروائی کا فیصلہ کیا جانا چاہئے تھا مگر یہ عالمی ادارہ ان ہی طاقتوں کا آلہ کار ہے جو اسرائیل کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے میں انصاف اور امن کی توقع پر جو ضرب پہنچتی ہے وہ صدمہ خیز ہے۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ارباب کو عالمی ادارہ کی سابق تاریخ پیش نظر رکھنا چاہئے جبکہ جمیعت اقوام جو اقوام متحدہ سے پہلے کا عالمی ادارہ ہے، اسی لئے قصہ پارینہ بن گیا کیونکہ وہ بھی عالمی بڑی طاقتوں کا آلہ کار بن گیا تھا۔ چنانچہ جمیعت اقوام کا خاتمہ ہوگیا اور اس کی جگہ ایک نیا عالمی ادارہ اقوام متحدہ کے نام سے قائم کیا گیا لیکن اقوام متحدہ بھی آج سامراجی طاقتوں کی کٹھ پتلی بن گیا ہے۔ عالم اسلام کو کبھی بھی اغیارسے انصاف، رحم یا ہمدردی کی توقع نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ اسرائیل کا وجود ہی خود اپنوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے جواپنی خودغرضی کیلئے عالمی سامراجی طا قتوں کی کٹھ پتلی بن گئے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی اس دور کے وزیرخارجہ برطانیہ بالفور کا رسوائے زمانہ بالفور اعلامیہ اسرائیل کے وجود کی ضمانت بنا۔ صیہونی پورے یو روپ کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں تھے چنانچہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں قائم کیا گیا۔ دنیا بھر کی یوروپی اقوام نے ’’ارضِ موعود‘‘ کے بہانے صیہونیوں کو ان کا ایک وطن مہیا کردیا تھا۔