استقبال رمضان توبہ سے تقویٰ تک کا سفر

شعبان کا متبرک مہینہ اختتام پذیر ہے اور رمضان المبارک کی آمد کا بے چینی سے انتظار ہے ۔ رمضان المبارک درحقیقت اہل ایمان کے لئے تربیتی نظام اور Training Program ہے جس میں اہل ایمان کو تقوی کے حصول کیلئے ایک خصوصی ماحول میں اجتماعی طورپر تربیت دی جاتی ہے ۔
مقاصد کی تحصیل میں اجتماعیت کو مرکزیت حاصل ہے ۔ مقاصد دنیوی ہوں یا اُخروی جماعت کی شکل میں جدوجہد کی جائے تو نتائج ثمرآور ثابت ہوتے ہیں۔ اُخروی مقاصد میں بھی اجتماعیت کوکلیدی اہمیت دی گئی ہے لہذا پنچوقت نماز کو مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے نیز ساری دنیا کے اہل ایمان کو بیک وقت صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں فریضۂ حج بھی مخصوص ایام میں مخصوص ارکان کے ساتھ مخصوص اماکن میں اجتماعیت کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ لہذا روحانی ترقی کیلئے نورانی فضاء اور اجتماعیت کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔
تقوی کو بالعموم خوف خدا یا خشیت الٰہی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اس کے مفہوم میں بہت سی وسعت ہے ۔ تقوی خشیت الٰہی ، محبت الٰہی اور عبادت و اطاعت کے علاوہ حصول مقصد میں ہمہ تن پیہم کوشش اور مسلسل جدوجہد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ تقوی راہ حق میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہایت مستعدی کے ساتھ پیش قدمی کرتا ہے ۔ اس کے لئے خوف و خشیت کے علاوہ محبت و اُلفت کے عنصر کا پایا جانا ضروری ہے یعنی محبوب کے وصال کی راہ میں ہر رکاوٹ کو ختم کرنا اور صبح و شام محبوب کے وصال کے لئے تیزگام چلنا اور آرام و سکون کی پرواہ کئے بغیر تیزی سے قدم بڑھانے کا نام تقوی ہے ۔ یہ درحقیقت ایک قلبی طاقت و قوت ہے۔ یہ ایک Will-Power ہے جو بندۂ مؤمن کو بے چین و بے قرار رکھتا ہے اور کسی پہلو پر اسکو مطمئن ہونے نہیں دیتا جب تک کہ وہ اپنے محبوب کے در تک پہنچ نہیں جاتا ۔ یہی کیفیت کو بیدار کرنے کیلئے اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس اُمت کو رمضان المبارک کا عظیم تحفہ عنایت فرمایا ہے۔
تقوی کا سفر شروع کرنے سے پہلے یا تقوی کی زندگی اختیار کرنے کیلئے سب سے پہلا قدم توبہ و استغفار کاہے ۔ یعنی بندۂ مؤمن اپنے کئے پر نادم و پشیمان ہو کہ اس نے گناہوں اور لایعنی اُمور میں اپنی قیمتی لمحات کو ضائع کردیاہے ۔ اس پر شرمندہ ہوکر خدا کی بخشش اور معافی کا خواستگار ہو اور آئندہ گناہوں اور لایعنی اُمور کی طرف توجہ نہ کرنے کاعزم مصمم کرتے ہوئے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ سے غیبی مدد اور فضل و رحمت کا خواہاں ہوں۔ بناء بریں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے رمضان المبارک سے پہلے شعبان المعظم رکھا ہے ۔ بفحوائے حدیث مبارک عموماً لوگ اس مہینے کو نظرانداز کردیتے ہیں جوکہ رجب المرجب اور رمضان المبارک کے درمیان ہوتا ہے اور یہ مہینہ توبہ و استغفار کا مہینہ ہے ، یہ مغفرت اور بخشش کامہینہ ہے ۔ یہ مہینہ روزوں اور کثرت سے تلاوت قرآن کی مشق کرنے کا مہینہ ہے اس لئے رمضان المبارک کا استقبال شعبان میں خالص اور سچی توبہ کے ذریعہ سے کرنا چاہئے ۔
سورۃ البقرہ دوسرا پارہ ساتویں رکوع کے آغاز سے مسلسل پانچ آیتیں (۱۸۳۔۱۸۷) روزوں کی فرضیت رمضان میں قرآن پاک کے نزول ، خداوبندے کے درمیان باہمی قربت و قبولیت دعاء اور اعتکاف سے متعلق ہے۔ انہی آیات میں روزہ کے ضروری احکام اور حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی آیت میں روزہ کی فرضیت کا حکم ہے اور اس آیت کا اختتام تقوی پر ہوتا ہے اور پانچویں آیت میں عفت و پاک دامنی کی تلقین ہے ۔ اعتکاف میں رات و دن کے کسی حصہ میں بیویوں کے ساتھ پاکیزہ و حلال طریقہ سے بھی رُکنے کاحکم ہے اور اس آیت کا اختتام بھی تقوی پر ہوتا ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے :
’’اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے اُمتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ہو ۔ چند مقررہ دنوں تک روزے ہیں ۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت نہ رکھتے ہوں تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزہ کا فدیہ ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لئے بہتر ہے اور اگر تم سمجھو تو تمہارا روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہی ہے ۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہذا ب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس پر فرض ہے کہ وہ اس پورے مہینے کے روزہ رکھے اور جو کوئی مریض ہو یاسفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے ۔ اﷲ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا ، اس لئے یہ طریقہ بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اﷲ نے تمہیں سرفرازکیا ہے اس پر اﷲ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو اور اے نبی ، میرے بندے اگر آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادوکہ میں اُن سے قریب ہوں ۔ دعاء کرنے والا جب مجھے پُکارتا ہے تو میں اُس کی پکار کو سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں لہذا انھیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پالیں ۔ تمہارے لئے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا ہے وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو اﷲ کو معلوم ہے کہ تم لوگ ( چپکے سے ) اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے مگر اُس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے درگز فرمایا ۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو اﷲ نے تمہارے لئے لکھدیا ہے اس کو حاصل کرو نیز راتوں کو کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نظر آجائے پھر تم رات تک اپنا روزہ پورا کرو اور جب تم مسجد میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت مت کرو یہ اﷲ کی حدود ہیں ان کے قریب تک نہ جانا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ اپنی آیات (و احکام) لوگوں سے بصراحت بیان کرتا ہے تاکہ وہ متقی بن جائیں۔ ( سورۃ البقرۃ ۔ ۱۸۳۔۱۸۷)
ان پانچ آیات میں چار اہم عناصر کا ذکر ہے (۱) روزے یعنی صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور تعلق زن و شوہر سے رُکنا (۲) نزول قرآن (۳) عبادت و دعاء (۴) اعتکاف یعنی دنیا کے ہرتعلق کو توڑکر اﷲ کے در پر خود کو ڈالدینا اور رات و دن عبادت الٰہی میں مشغول ہونا اور یہی تقوی کی عظیم کیفیت ہے اور یہی وصف رمضان المبارک کے تربیتی نظام کا مقصد ہے ۔