ادب ِمصطفیﷺ، حصولِ ہدایت ِقرآن کا اہم ذریعہ

ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
رب کائنات نے ساری انسانیت کی رہنمائی کے لئے قرآن حکیم کو نازل فرمایا ۔ قرآن حکیم الفاظ کی ترتیب و شگفتگی، بیان کی سلاست و نغمگی، نظم آیات و افکار رسانی کا ایسا مرقع ہے جو بنی نوع انسانی کو ذہنی، فکری، جسمانی، نفسیاتی، تہذیبی غلامی اور باطل نسلی و قومی امتیازات و تعصبات سے آزادی حاصل کرنے کا سلیقہ و طریقہ سکھاتا ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر انسان درجہ عالیہ، علمی وجاہت، حسن سیرت، بلند کردار اور اوج کمال و شرافت کی اس منزل پر فائز ہوجاتا ہے کہ اگر اس کا خاکی جسم دنیا سے دارالبقاء کی طرف منتقل ہو جائے، تب بھی اس کے روحانی فیوض و برکات سے انسانیت فیض یاب ہوتی رہتی ہے اور تاقیام شمس و قمر بلا لحاظ مذہب و ملت ساری انسانیت اس پاک باز ہستی کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرتی رہتی ہے۔

قرآنی احکامات پر عمل پیر انسان خوش رنگ و خوش ذائقہ پھل کی طرح ہوتا ہے، یعنی اس کا ظاہری کردار بھی اتنا نفیس ہوتا ہے کہ لوگ اس کی عزت و توقیر کرتے ہیں اور باطنی طور پر پاکیزہ و مطہرکے باوصف وہ عند اللہ بھی مقبول ہوتا ہے۔ یہ معجزانہ کلام قیامت تک بلا تفریق رنگ و نسل تمام نسل انسانی کی رشد و ہدایت کا منبع ہے۔ ارشاد ربانی ہے’’ ماہ رمضان المبارک جس میں اُتارا گیا قرآن اس حال میں کہ یہ راہ حق دکھاتا ہے لوگوں کو اور (اس میں ) روشن دلیلیں ہیں ہدایت کی اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت۱۸۵) رمضان المبارک بے شمار فضیلتوں، برکتوں ، رحمتوں اور بخششوں کا مہینہ ہے لیکن اس آیت مبارکہ میں رمضان المبارک کی خصوصیت و امتیاز و تفوق و برتری کی ایک وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اس ماہ مبارک میں قرآن حکیم جیسا فصیح و بلیغ اور مہتم بالشان کلام نازل ہوا ہے جس میں ایسے واضح دلائل اور روشن نشانیاں موجود ہیں کہ اگر کوئی بھی انسان تعصب کا چشمہ اتارکر اس کا صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ مطالعہ کرے گا تو اس میں اتنی استعداد و قابلیت پیدا ہوجائے گی کہ اس کے لئے ظلمات و معصیت کی کثافتوں سے نکلنا آسان اور سیدھے راستے پر چلنا سہل ہوجائے گا۔

جن سلیم الفطرت انسانوں کو فقاہت و ہدایت قرآنی سے وافر حصہ نصیب ہوتا ہے، وہ خود ساختہ نظریات و مخصوص آرا کو بالائے طاق رکھ کر قرآن و صاحب قرآنﷺ کے بیان کردہ جامع و ہمہ گیر احکامات کو جب اپنے لئے شافی و کافی سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق اپنے کردار کو ڈھالنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو دنیوی عظمت، عروج، رفعت اور اخروی سعادتیں ان کا مقدر بن جاتی ہیں اور جو لوگ تعلیمات قرآن سے اعراض کرتے ہیں وہ ذلت و رسوائی کے دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔
انسانی زندگی میں مثبت و پاکیزہ تبدیلی، دنیا کی کامیابی اور عقبیٰ کی سرخروئی کا مدار ہدایت قرآن پر منحصر ہے اور قرآنی ارشادات و ہدایات سے کامل طور پر وہی معزز و پرہیزگار ہستیاں مستفید و فیضیاب ہو سکتی ہیں، جو صاحب تقویٰ و عمل ہوں۔ ارشاد ربانی ہے ’’یہ ذی شان کتاب ذرا شک نہیں اس میں، یہ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے وہ جو ایمان لائے ہیں غیب پر اور صحیح ادا کرتے ہیں نماز اور اس سے جو ہم نے انہیں روزی دی خرچ کرتے ہیں اور وہ جو ایمان لائے ہیں اس پر (اے حبیبؐ) جو اتارگیا ہے آپ ؐ پر اور جو اتارا گیا آپ ؐ سے پہلے اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں‘‘۔ (سورۃ البقرۃ آیات ۲تا۵) اس آیت پاک میں شاہراہ ہدایت پر گامزن ہونے کے لئے انسان کے احساسات ستہ یعنی (۱) تقوی (۲) ایمان بالغیب (۳) نماز (۴) انفاق (۵) رواداری اور (۶) ایمان بالآخرت کے بیدار ہونے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔

انسان چونکہ ضعیف واقع ہوا ہے چنانچہ اگر وہ اپنی جانب سے ان احساسات کو بیدار کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کی یہ کوشش ناقص ہوگی، اس کے برعکس اگر رب کائنات بندے کے ان احساسات کو بیدا کرے تو اس میں اکملیت ہوگی۔ اللہ تعالی اس نعمت سے ان ہی اشخاص کو سرفراز فرماتا ہے، جسے وہ چاہتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اللہ تعالی چن لیتا ہے اپنی طرف جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اپنی طرف جو (اس کی طرف ) رجوع کرتاہے‘‘ (سورۃ الشوریٰ۔۱۳)اور ایک آیت پاک میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ’’اللہ تعالی نے فرمایا میں اپنا عذاب پہنچاتا ہوں اسے جسے چاہتا ہوں اور میری رحمت کشادہ ہے ہر چیز پر سو میں لکھوں گا اس کو ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ادا کرتے ہیں زکوۃ اور وہ جو ہماری نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں‘

(سورۃ الاعراف۔۱۵۶) یعنی رحمت کردگار کے مستحق وہی اشخاص ہوں گے جو مذکورہ بالا صفات عالیہ سے متصف ہوں گے۔ ان صفات مرضیہ میں تقویٰ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، چوں کہ یہ تمام حسنات کی اساس، تمام انبیا و مرسلین کی تعلیمات کا لب لباب اور مومن کے عرفانی مدارج کا کمال ہے۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ صفت تقویٰ کے بغیر تمام حسنات کی بارگاہ رب العزت میں کوئی وقعت نہیں ہے بندے کے وہی افعال و اعمال صالحہ شرف قبولیت حاصل کرتے ہیں، جو مبنی پر تقویٰ ہوں۔
اس بات سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ تقویٰ سے بڑھ کر کوئی رحمت، نعمت اور فضل نہیں ہے، چونکہ قرآن حکیم کی ہدایت کا مدار بھی اسی صفت عالیہ پر منحصر ہے اور اللہ تعالی اس نعمت عظمی سے ان ہی بندوں کو سرفراز فرماتا ہے جو جان ایمان و روح دین یعنی ادبِ مصطفیﷺ بجالاتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے’’ بے شک جو پست رکھتے ہیں اپنی آوازوں کو اللہ کے رسول کے سامنے، یہی وہ لوگ ہیں مختص کرلیا ہے اللہ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لئے (سورۃ الحجرات۔۳) یعنی جو امتی ادب و احترام مصطفیٰﷺ کو ملحوظ رکھتا ہے، رب کائنات اسے نعمت خاصہ یعنی تقویٰ کی دولت عنایت فرماتا ہے، جو نہ صرف حصول ہدایت قرآن کا اہم ذریعہ ہے بلکہ قبولیت اعمال صالحہ کا سبب بھی ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے: ’’قبول فرماتا ہے اللہ صرف پرہیز گاروں سے‘‘ (سورۃ المائدہ۔۲۷) یعنی بارگاہ ایزدی میں وہی اعمال قبولیت کا درجہ پاتے ہیں جو تقویٰ پر مبنی ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی پہچان علم سے نہیں بلکہ ادب سے ہوتی ہے، کیونکہ علم تو ابلیس کے پاس بھی تھا۔ وہ تو معلم الملائکہ تھا، لیکن وہ ادب کی نعمت سے محروم تھا، اسی لئے اسے جنت سے نکال دیا گیا۔ چونکہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ بنی آدم جنت کے مستحق ہوجائیں اسی لئے وہ امام الانبیا و سید المرسلینﷺ کو مبعوث فرماتا ہے کہ ہم آپﷺ کا ادب بجالاکر جنت کے مستحق بن جائیں۔