احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کا اندیشہ پر خلع کا طلب کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید سے انکی بیوی عامرہ خلع لینا چاہتی ہیں۔ایسی صورت میں خلع کے متعلق شرعًا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : شرعًا میاں بیوی کے ساتھ رہنے میں احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہو اور بیوی شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے تو وہ کسی مالی معاوضہ کی ادائی کے بدل شوہر سے علحدگی کی درخواست کرسکتی ہے، شوہر کے اسکو قبول کرنے کے بعد بذریعہ طلاقِ بائن دونوں میں تفریق ہوجائیگی۔ اسکو ’’خلع ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جوبھی خلع میں معاوضہ طے پائے، اسکی ادائی بیوی پر لازم ہوگی۔اگر کوئی بھی چیز معاوضہ طے نہ پاکر خلع ہوجائے تو مہر کو اسکا معاوضہ قرار دیا جائیگا۔ اور شوہر کے ذمہ سے مہر کی ادائی ساقط ہوجائیگی۔ اگر مہر ادا کردیا تھا تو بیوی اس کو واپس کردے۔ فتاوی عالمگیری جلد اول باب الخلع صفحہ ۴۸۸ میں ہے: الخلع ازالۃ ملک النکاح ببدل بلفظ الخلع کذا فی فتح القدیر… اذا تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اﷲ فلابأس بأن تفتدی نفسھا منہ بمال یخلعھا بہ فاذا فعلا ذلک وقعت تطلیقۃ بائنۃ ولزمھا المال کذا فی الھدایۃ۔ اور شرح وقایہ باب الخلع میں ہے: والمھر یسقط من غیر ذکرہ ۔
جبرًا لینا غصب ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بوقت شادی ہندہ کو شوہر زید اور خسر کی طرف سے تین تولے سونا کا زیور بطور چڑھاوا تحفہ دیئے تھے۔ پھر دونوں (شوہر اور خسر) ہندہ سے زبردستی وہ زیور لے لئے اور دینے سے انکار کررہے ہیں۔
ایسی صورت میں شرعًا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : بشرطِ صحتِ سوال صورتِ مسئول عنہا میں ہندہ کو شادی کے وقت شوہر زید اور خسر کی طرف سے چڑھاوے کے طور پر دیا گیا طلائی زیور ہندہ کی ملک ہے۔ شوہر اور خسر کا اُن سے جبرًا زیورلینا غصب ہے، ان پر اسکو لوٹانا لازم ہے اور انکا یہ عمل گناہ ہے۔ درمختار بر حاشیہ ردالمحتار جلد ۴ صفحہ ۵ میں ہے : وھذا یوجد کثیر بین الزوجین یبعث الیھا متاعا و تبعث لہ ایضا وھو فی الحقیقۃ ھبۃ۔ اور فتاوی عالمگیری جلد۵ کتاب الغصب صفحہ ۱۱۹ میں ہے : اما تفسیرہ شرعًا فھو أخذ مال متقوم محترم بغیر اذن المالک علی وجہ یزیل ید المالک ان کان فی یدہ أو یقصر یدہ ان لم یکن فی یدہ کذا فی المحیط … و أما حکمہ فالاثم والمغرم عند العلم … ویجب علی الغاصب رد عینہ علی المالک وان عجز عن رد عینہ بھلاک فی یدہ بفعلہ او بغیر فعلہ فعلیہ مثلہ۔
مالکِ زمین کی اجازت کے بغیر، میت کی تدفین کا شرعی حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ، میت کی تدفین مالکِ زمین کی اجازت کے بغیر کی جائے تو شرعًا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : میت کی تدفین کسی کی ذاتی مملوکہ اراضی میں، مالکِ زمین سے قبر کے موافق زمین خریدکر کی گئی ہو یا مالکِ زمین نے قبر کے موافق زمین ھبۃً یا تبرعًا دی ہو تو ان تین صورتوں میں میت کا احترام اسی طرح ہونا چاہئے، جسطرح اسکی زندگی میں تھا۔ فتح القدیر جلد ۳ فصل فی الدفن میں ہے : الاتفاق علی ان حرمۃ المسلم میتا کحرمتہ حیا۔ اور اگر تدفین مالکِ زمین کی اجازت کے بغیر کی گئی ہے تو مالکِ اراضی کو اختیار ہے کہ میت کو نکال لینے کیلئے کہے یا قبر کو زمین کے برابر کرکے اپنے استعمال میں لالے۔ فتاوی عالمگیری جلد اول صفحہ ۱۶۷ میں ہے : اذا دفن المیت فی ارض غیرہ بغیراذن مالکھا فالمالک بالخیار ان شاء امر باخراج المیت وان شاء سوی الارض و زرع فیھا کذا فی التجنیس۔ فقط واﷲ أعلم